نظیری، جامی، گرامی، علی حزیں، قرۃ العین طاہرہ، غالب، اقبال اور دوسرے فارسی اساتذہ کے چیدہ چیدہ اشعار ان کے اپنے ہاتھ سے لکھے ہوئے ہیں۔ دوسری طرف غالب، میر، داغ، سودا، مومن اور دوسرے اُردو اساتذہ کا انتخاب ہے۔ آخر میں اپنے بعض ہم عصر شعراء کا کلام بھی درج کیا ہے۔ یہ انتخاب اُن کے حسنِ ذوق کی خبر دیتا ہے۔ اس بیاض پر کلامِ ذوق کے انتخاب کے آخر میں 18 مئی 1932ء نیو سنٹرل جیل ملتان لکھا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیاض میں اکثر اشعار عہدِ جوانی میں لکھے گئے۔ شعروں کے انتخاب سے اُن کے طبعی رجحان کا پتہ چلتا ہے۔ اشعار ایسے منتخب کیے ہیں جن میں زندگی ہے، رجائیت ہے، فعالیت ہے۔ بعض بڑے تیکھے اور شوخ اشعار بھی بیاض میں ملے۔ بعض نظمیں انقلابی ہیں۔ وہ اشعار جن میں زنجیروں، بیڑیوں، قید خانوں اور پھانسیوں پر لٹکنے کا ذکر ہے، بڑی دلچسپی سے نقل کیے گئے ہیں۔ کچھ عارفانہ کلام بھی بیاض میں درج کیا گیا ہے۔ بعض ایسے شعر بھی بیاض میں لکھے ہیں، جن سے حضورِ اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام سے والہانہ محبت ٹپکتی ہے۔ بیاض کی ضخامت اچھی خاصی ہے۔ اس خرمن کے چند خوشے پیشِ خدمت ہیں: انتخاب کلام میر تقی میر علیہ الرحمہ کیا بودوباش پوچھو ہو پورب کے ساکنو! ہم کو غریب جان کے ہنس ہنس پکار کے دلی جو ایک شہر تھا عالم میں انتخاب رہتے تھے منتخب ہی جہاں روزگار کے اس کو فلک نے لوٹ کے ویران کر دیا ہم رہنے والے ہیں اسی اُجڑے دیار کے --- لگا دوں دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے جو کچھ کہ میر کا اس عاشقی نے کام کیا --- |