اچھے شعر سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ کبھی کبھی شعر سناتے بھی تھے۔ ایک دن موقع کی مناسبت سے میں نے یہ شعر پڑھا: اندریں رہ می تراش ومی غراش تادمِ آخر دمے فارغ مباش انہوں نے برجستہ یہ شعر سنایا: ہے شوق و ضبطِ شوق میں دن رات کش مکش دل مجھ کو، میں ہوں دل کو پریشاں کیے ہوئے ایک زمانے میں کسی مقصد کے حصول کے لیے میں تگ و دو کر رہا تھا۔ اس سلسلے میں اپنے ایک حریف کے ہاں بھی مجھے دوچار بار جانا پڑا۔ انہیں خبر ہوئی تو مسکرائے اور ظرافت آمیز لہجے میں دو تین بار یہ شعر پڑھا: اس نقش پا کے سجدے نے کیا کیا، کیا ذلیل میں کوچہ رقیب میں بھی سر کے بل گیا میں یہ دیکھ کر خوش ہوتا تھا کہ اُن میں وہ تقشف نہ تھا جو انسان کو پتھر بنا دیتا ہے اور انسانیت کا جوہر انسان سے اُچک لیتا ہے۔ اُن کی ایک بیاض میرے پاس موجود ہے جس میں ایک طرف حافظ، عرفی، فیضی، |