حکیم نور الدین کا مسلم مقاطعہ میاں محمود اپنے باپ کا ذکر کرتے ہوئے لکھتا ہے: ’’ایک شخص نے بار بار پوچھا اور کئی قسم کی مجبوریوں کو پیش کیا، لیکن آپ نے اس کو یہی فرمایا کہ لڑکی بٹھائے رکھو، لیکن غیر احمدیوں میں نہ دو۔ آپ کی وفات کے بعد اُس نے غیر کو لڑکی دے دی، تو حضرت خلیفہ اول نے اس کو احمدیوں کی امامت سے ہٹا دیا اور جماعت سے خارج کر دیا اور اپنی خلافت کے چھ سالوں میں اس کی توبہ قبول نہ کی، باوجودیکہ وہ بار بار توبہ کرتا رہا۔‘‘ (انوارِ خلافت ص 64) اقتصادی مقاطعہ مرزائیوں سے اتحاد کے متمنی مسلمان اس حقیقت کو نہیں معلوم کیوں نظرانداز کر دیتے ہیں کہ جس مذہب کی بنیاد ان تعلیمات پر ہے، جن کا ذکر اوپر کر چکا ہوں کہ وہ ہر معاملہ میں مسلمانوں کے ساتھ علیحدگی اور افتراق کو اپنی حیات کے لیے ضروری سمجھتے ہوں نہ صرف یہ بلکہ تمام غیر مسلم اقوام کے کفر کے مقابلہ میں مسلمانوں کو بہت بڑے کافر سمجھتے ہوں۔ کاش وہ چشمِ بصیرت سے ان مصائب کا مطالعہ کرتے جو قادیان میں رہنے والے مسلمانوں پر خلیفہ قادیان اور اس کی جماعت کی طرف سے نازل کیے جاتے رہے ہیں۔ اگر ان کو مباہلہ والوں کی دردناک داستان سننے کی فرصت نہ ملی۔ اگر اُن کو شہید محمد حسین کے پسماندگان سے اُن کی زہرہ گداز تکالیف معلوم کرنے کے لیے وقت میسر نہیں ہوا، اگر اس وحشت انگیزی کی خبریں ان کے کانوں تک نہیں پہنچیں جو مرزائی رضا کار قادیان میں وقتاً فوقتاً پھیلاتے رہے ہیں، کم از کم مسٹر کھوسلہ کا فیصلہ پڑھنے کی فرصت تو مل گئی ہو گی جس میں اُن کو نظر آیا ہو گا: ’’اُنہوں نے اپنے دلائل دوسروں سے منوانے اور اپنی جماعت کو ترقی |