اور اسی کتاب کے ص 91 پر میاں محمود اپنے باپ مرزا غلام احمد کے متعلق ایک واقعہ لکھتا ہے: ’’آپ کا ایک بیٹا فوت ہو گیا جو آپ کی زبانی طور پر تصدیق کرتا تھا۔ جب وہ مرا تو مجھے یاد ہے آپ ٹہلتے جاتے اور فرماتے کہ اُس نے کبھی شرارت نہیں کی تھی بلکہ میرا فرمانبردار ہی رہا – اور یہ بھی فرماتے کہ میری بڑی عزت کیا کرتا تھا، لیکن آپ نے اس کا جنازہ نہ پڑھا۔‘‘ جس مذہب کے بانی کا اپنے فرمانبردار بیٹے کے ساتھ یہ سلوک ہے کوئی مسلمان اس گروہ سے کسی ہمدردی یا کسی سلوک کی کیا اُمید رکھ سکتا ہے۔ مسلمانوں سے نکاح حرام تاکہ زندگی کا کوئی شعبہ ایسا نہ رہ جائے جس سے اُمتِ مرزائیہ کا اُمتِ مسلمہ کے ساتھ تعلق باقی رہے، اس لیے نکاح کے متعلق یہ حکم سنایا گیا: ’’حضرت مسیح موعود کا حکم اور زبردست حکم ہے کہ کوئی احمدی غیر احمدی کو لڑکی نہ دے۔‘‘ (برکاتِ خلافت ص 75) میاں محمود ایک دوسری کتاب میں مسلمانوں کے ساتھ نکاح کو ہندوؤں اور عیسائیوں کے ساتھ نکاح کے مماثل قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’جو شخص غیر احمدی کو رشتہ دیتا ہے، وہ یقیناً مسیح موعود کو نہیں سمجھتا اور نہ یہ جانتا ہے کہ احمدیت کیا چیز ہے؟ کیا غیر احمدیوں میں کوئی ایسا بے دین ہے جو کسی ہندو یا عیسائی کو اپنی لڑکی دے۔ ان لوگوں کو تم کافر کہتے ہو، مگر تم سے اچھے رہے کہ کافر ہو کر بھی کسی کافر کو لڑکی نہیں دیتے، مگر تم احمدی کہلا کر کافر کو دیتے ہو۔‘‘ (ملائکۃ اللہ ص 46) |