جو میرے پر نازل ہوتی ہے، وہ اس خدا کا کلام ہے، جس نے حضرت موسیٰ اور حضرت عیسیٰ اور حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر اپنا کلام نازل کیا تھا۔‘‘ (ایک غلطی کا ازالہ، مصنفہ مرزا غلام احمد) اور اس تمام خرافات کو جسے مرزا غلام احمد الہامات اور وحی الٰہی سے تعبیر کرتا ہے، اس کے مجموعہ کو بیس سپاروں کے برابر حجم قرار دیتے ہوئے لکھتا ہے: ’’اور خدا کا کلام اس قدر مجھ پر نازل ہوا ہے کہ اگر وہ تمام لکھا جائے، تو بیس جزو سے کم نہ ہو گا۔‘‘ (حقیقت الوحی ص 391) اس لحاظ سے عام مسلمانوں کا قرآن تو تیس پاروں کا ہے لیکن مرزائیوں کا قرآن قدیم اور جدید کلامِ الٰہی کا مجموعہ گویا پچاس پاروں کا ہو گا۔ (معاذ الله من ذالك) نئی اُمت کا اعلان نبوت اور کتاب اللہ کا یقین دلانے کے بعد مرزا غلام احمد نے ان الفاظ سے ایک نئی اُمت کی بنیاد ڈالی: ’’جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے گا، اس دعویٰ میں ضرور ہے کہ وہ خدا تعالیٰ کی ہستی کا اقرار کرے اور نیز یہ بھی کہے کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے میرے پر وحی نازل ہوتی ہے اور نیز خلق اللہ کو وہ کلام سنا دے جو اس پر خدا تعالیٰ کی طرف سے نازل ہوا ہے اور ایک اُمت بنا دے جو اس کو نبی سمجھتی ہو اور اس کی کتاب کو کتاب اللہ جانتی ہو۔‘‘ (ارشاد مرزا غلام احمد، الحکم، قادیاں نمبر 21، جلد 7) اب اس نئے سلسلہ کے تمام لوازم اور مناسبات دیکھتے جائیے۔ اس کے مطالعہ سے اس امر کے فیصلہ کرنے میں کوئی دقت نہیں ہو گی۔ خود مرزا غلام احمد اور اس کے خلفاء کے اعلانات اور ہدایات وغیرہ مرزائیوں کو تمام مسلمانوں سے الگ ایک اُمت اور علیحدہ |