Maktaba Wahhabi

393 - 458
بعثتِ ثانی کے کافر کفر میں بعثتِ اول کے کافروں سے بہت بڑھ کر ہیں۔‘‘ (الفضل 15 جولائی 1915ء) اب اس امر میں کیا شبہ باقی رہ گیا ہے کہ مرزا غلام احمد کو نبی اللہ نہ ماننے والے تمام دنیا کے مسلمان مرزائیوں کے نزدیک ابوجہل، ابو لہب اور دوسرے معاندینِ اسلام سے کفر میں کہیں بڑھ کر ہیں اور اس ملک میں بسنے والی غیر مسلم اقوام جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی منکر ہیں، ان کے کفر کے مقابلہ میں مرزا غلام احمد کی نبوت کے منکر یعنی مسلمان مرزائیوں کے نزدیک بہت بڑے کافر ہیں۔ معاذ اللہ پس ایسی حالت میں اگر مسلمان حکومت سے یہ مطالبہ کریں کہ مرزائیوں کو مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دیا جائے تو یہ کون سی غلط بات ہے، بلکہ یہ تو مرزا غلام احمد کی تعلیمات کے مطابق ان کی عین منشا کے موافق ہے اور اسی مقصد کی تکمیل کے لیے تو اُس نے اپنی ’’وحی‘‘ کو قرآن کریم کی طرح قطعی، یقینی اور لاریب بیان کیا اور صاحبِ کتاب، صاحب شریعت اور صاحبِ اُمت ہونے کا دعویٰ کر کے عام مسلمانوں سے قطعِ تعلق کا حکم دیا۔ قادیانی ’’کلام اللہ‘‘ مرزا غلام احمد نے نبوت کا جال بچھانے کے بعد یہ ضروری سمجھا کہ نئی اُمت کی بنیاد ڈالنے کے لیے صاحب کتاب ہونے کا بھی دعویٰ کر دیا جائے، اس لیے اُس نے صاحبِ وحی ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ جو کلام مجھ پر نازل ہوتا ہے، وہ بغیر ایک ذرہ کے فرق کے قرآن کریم کی طرح اللہ کا کلام ہے جیسا کہ ذیل کی عبارات سے ظاہر ہوتا ہے: ’’اور میں جیسا کہ قرآن شریف کی آیات پر ایمان رکھتا ہوں، ایسا ہی بغیر فرق ایک ذرہ کے خدا کی اس کھلی وحی پر ایمان لاتا ہوں جو مجھے ہوئی – اور میں بیت اللہ میں کھڑے ہو کر یہ قسم کھا سکتا ہوں کہ وہ پاک وحی
Flag Counter