مرزا غلام احمد قادیانی نے اپنے نئے مذہب کی بنیاد اس غلام آباد میں اس وقت رکھی جب کہ ہندوستان کے مسلمان اپنی محکومی اور غلامی کی وجہ سے مذہبی اور سیاسی پستی کی انتہاء کو پہنچ چکے تھے اور بظاہر اس رقیت اور تعبد سے نکلنے اور حریت و آزادی کے لیے سر اُٹھانے کی کوئی اُمید نہ رہی تھی۔ اس وقت بانی فرقہ نے مسلمانوں کی درماندگی اور ذلت کا یقین رکھتے ہوئے اور مسلمانوں کی پستی کو ابدی زوال خیال کرتے ہوئے مجددیت، مہدویت، مسیحیت اور نبوت کے دعاوی کو بتدریج پیش کیا۔ جوں جوں حکومتِ وقت کی آئینی گرفت اس بدقسمت ملک کے رہنے والوں پر قوی تر ہوتی گئی۔ بانی فرقہ اپنے دعاوی کو پہلے سے بلند و ارفع کرتا چلا گیا، حتیٰ کہ وہ وقت آ گیا جب کہ بانی فرقہ کو یقین آ گیا کہ حکومت کا دیا ہوا امن و امان جہاں اس کے دعاوی کی بلاخطر اشاعت اور آزادانہ تبلیغ کا ضامن ہے، وہاں حکومت کی قوت و سطوت ملک پر وہ سکہ بٹھا چکی ہے کہ دعاوی کو اگر انتہائی منزل تک پہنچا کر بالکل نئے مذہب اور نئی اُمت کی بنیاد رکھ دی جائے، تو مسلمانوں کی قوت مزاحم نہ ہو سکے گی، بلکہ بہت ممکن اور قرین قیاس ہے کہ یہ نئی اُمت کی تجویز حکومتِ وقت کے منشاء کے مطابق ہو اور اس کے حاکمانہ اغراض کو زیادہ مستحکم کرنے والی ثابت ہو۔ نئی اُمت کی تشریح وہ مسلمان جو اس خطرناک غلطی میں مبتلا ہیں کہ قادیانی گروہ اسلام کا ایک فرقہ ہے اور اُسے اسلام اور اُمت مسلمہ سے الگ ایک نیا فرقہ یا نئی اُمت کہنے کو اور اس کے خلاف کفر کے فتوے صادر کرنے کو تنگ خیالی اور اتحادِ اسلام کے منافی سمجھتے ہیں، اُن کے لیے اس سلسلہ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ بانی فرقہ اور اس کے خلفاء اور جانشینوں کے اقوال کا یہاں مختصر ذکر کروں تاکہ یہ واضح ہو سکے کہ مرزا غلام احمد قادیانی نے جب تبلیغِ اسلام کی آڑ میں اپنی پیری مریدی کا حلقہ کافی وسیع کر لیا اور مختلف پیش گوئیوں اور |