حضرت والد علیہ الرحمہ اتحاد بین المسلمین کے زبردست حامی اور داعی تھے، لیکن قادیانیت کے ساتھ کسی قسم کے سمجھوتے کی کوئی گنجائش اُن کے ہاں نہ تھی۔ وہ مرزائیوں کو مسلمانوں سے خارج سمجھتے تھے اور انہیں الگ فرقہ قرار دیتے تھے۔ قادیانیت کے بارے میں اُن کے موقف کی وضاحت کے لیے اُن کا ایک مکمل مضمون نقل کیا جاتا ہے۔ یہ مضمون اُنہوں نے 1936ء میں لکھا تھا، لیکن مضمون کی افادیت اب بھی برقرار ہے۔ اس مضمون میں اُنہوں نے مرزا غلام احمد اور مرزا محمود کی تحریروں سے ثابت کیا ہے کہ مرزائی مسلمانوں سے الگ ایک فرقہ ہے اور خود مرزا غلام احمد اور اُن کے خلفاء کی تعلیمات اور اُن کے طرز عمل کی بناء پر مرزائی اس بات کے سزاوار ہیں کہ انہیں مسلمانوں سے الگ ایک اقلیت قرار دیا جائے۔ ’’اسلام اور قادیانیت‘‘ مرزائی مسلمانوں سے الگ ایک فرقہ ہے مرزا غلام احمد اور مرزا محمود کی تحریروں کی روشنی میں قادیانیت ایک فتنہ ہے، لیکن یہ فتنہ ہر اعتبار سے پہلے فتنوں سے زیادہ اہم زیادہ وسیع، زیادہ منظم اور حکومتِ وقت کی پشت پناہی کے ساتھ خود کاشتہ پودے کی طرح پرورش پا رہا ہے۔ یہ ایک ناقابلِ انکار حقیقت ہے کہ اسلام کی سیزدہ صد سالہ زندگی میں اس سے قبل کبھی اُمتِ مسلمہ کو اس قسم کے فتنہ سے سابقہ نہیں پڑا۔ |