((لان في هذا البيان سُوء الادب)) اس لیے جرأت نہ کرتے کہ اس بیان میں امام شافعی رحمہ اللہ کی بے ادبی ہے۔ نور الانوار درسی کتاب ہے اور تمام مدارس میں پڑھائی جاتی ہے۔ کیا اس کا یہ معنی سمجھا جائے کہ تمام حنفی مدارس میں امام شافعی رحمہ اللہ کے لیے سوءِ ادب کی سبقاً و درساً تعلیم دی جاتی ہے؟ ایک واقعہ یاد آ گیا۔ مجھ سے یہ واقعہ مولانا مفتی محمد حسن صاحب رحمہ اللہ خلیفہ اعظم حضرت مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا۔ حضرت مفتی صاحب اپنے علم و فضل کے لحاظ سے ہمارے زمانہ کے ممتاز علماء میں سے ہیں۔ تصوف میں ان کا قدم راسخ ہے۔ تصوف میں عالمانہ بصیرت جیسے انہیں حاصل ہے بہت کم صوفیاء کو حاصل ہو گی۔ بہت بڑے عالم اور خَلقِ عظیم کے مطاع اور مخدوم ہیں۔ لیکن ساتھ ہی بڑے متواضع اور منکسر المزاج ہیں۔ فرماتے ہیں: کہ شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن رحمۃ اللہ علیہ نے ایک دفعہ خواب میں دیکھا کہ ’’امام شافعی رحمہ اللہ برہنہ تلوار لیے مدرسہ دیوبند میں بڑے غصہ کی حالت میں گھوم رہے ہیں‘‘ حضرت شیخ الہند رحمہ اللہ اس خواب سے بہت پریشان ہوئے اور صبح ہوتے ہی حضرت مولانا انور شاہ رحمہ اللہ سے ذکر کیا اور فرمایا کہ کسی نے حضرت امام شافعی رحمہ اللہ کی شان میں گستاخی کی ہے۔ شاہ صاحب نے تحقیقات کے بعد عرض کیا کہ حضرت سوائے اس کے اور کچھ معلوم نہیں ہو سکا کہ ایک شافعی طالب علم نے حنفی مسلک اختیار کر لیا ہے۔ اس عاجز کی رائے میں اتنی سی بات کے لیے امام شافعی رحمہ اللہ کا شمشیر بکف ہو کر مدرسہ دیوبند میں غصہ کی حالت میں پھر ناکچھ صحیح نہیں معلوم ہوتا۔ اصل حقیقت یہ ہے کہ حنفی اور شافعی سے اختلافی مسائل کے بیان کرنے میں بالعموم ادب کا دامن چھوٹ جاتا ہے اور طلباء اس بارے میں زیادہ بے احتیاط ہوتے ہیں اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ دیوبند |