قول آپ کے فتویٰ کے خلاف مل جائے تو کیا کریں۔ جواب دیا کہ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے مقابلے میں بھی میرا قول چھوڑ دو۔‘‘ فرماتے تھے کہ امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے یہ ارشادات ’’روضة العلماء‘‘ میں صاحبِ ہدایہ سے منقول ہیں۔ یہ مسئلہ بیان کرتے ہوئے ائمہ کرام کے اقوال کا انبار لگا دیتے تھے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کا یہ قول بھی شیخ عبدالوہاب شعرانی رحمہ اللہ کی کتاب ’’اليواقيت والجواهر‘‘ کے حوالے سے نقل کرتے۔ ہر شخص کے کلام میں سے اخذ بھی کیا جا سکتا ہے اور اسے رد بھی کیا جا سکتا ہے۔ صرف حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہی کا ارشاد ہے جسے ہر حالت میں قبول کرنا چاہیے اور جسے رد نہیں کیا جا سکتا۔ اسی طرح فرماتے تھے کہ امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کا بھی ارشاد ہے: ((اذَ بَلَغَكُم خَبَرٌ صحيحٌ يُخَالِفْ مَذْهَبِي وَاعْلَمُوا اَنَّهٗ مَذْهَبِيْ)) ’’جب تمہیں میرے مذہب کے خلاف حدیث صحیح مل جائے تو اسی کی پیروی کرو۔ سمجھ لو کہ وہی میرا مذہب ہے۔‘‘ اور فرماتے اسی طرح امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ تاکید کرتے تھے کہ حدیث کے مقابل کسی اور کا قول پیش نہ کرنا چاہیے۔ جیسا کہ امام شعرانی رحمہ اللہ نے ’’الیواقیت والجواہر‘‘ میں لکھا ہے۔ پس صحیح معنوں میں حنفی، مالکی، شافعی یا حنبلی بننے کے لیے بھی ضروری ہے کہ حدیثِ صحیح پر عمل کیا جائے، ورنہ اپنے امام کی بھی مخالفت کرے گا اور اس کی اطاعت سے بھی باہر ہو گا۔‘‘ فرماتے تھے: ’’میرا فقہی موقف وہی ہے جو حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کا موقف تھا اور اُنہوں نے عقد الجید، انصاف، حجۃ اللہ البالغہ اور تفہیمات میں شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا ہے۔ اور یہی مذہب تھا قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ [1] کا اور یہی مذہب تھا میاں نذیر حسین رحمہ اللہ [2] |