نے ’’الوابل الصّيب‘‘ میں کیا ہے۔ اپنے مقالے ’’ذكر الله عزوجل‘‘ میں حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کے حوالے سے لکھتے ہیں: ((الذكر تارة تكون بالقلب واللسان، وذٰلك افضل الذكر، و بالقلب وحدة تارة وهي الدرجة الثانيه، وباللسان وحده تارة وهي الدرجة الثالثة، افضل الذكر ما تواطأ عليه القلب واللسان، وانّما كان ذكر القلب وحده افضل من ذكر اللسان وحده لان ذكر القلب يثمر المعرفة ويهيج المحبة و يثير الحياء و يبعث علي المخافة ويدعوا اليٰ المراقبة ويردع عن التقصير في الطاعات والتهاون في المعاصي والسّيئات۔ وذكر اللسان وحده لا يوجب شيئاً من هٰذهٖ الآثار، وان اثمر شيئاً منها فثمرة ضعيفة)) (صفحہ 3) ’’ذکر کبھی بیک وقت دل اور زبان سے ہوتا ہے اور یہ ذکر کی سب سے افضل صورت ہے اور کبھی صرف دل سے ہوتا ہے اور فضیلت کے لحاظ سے یہ دوسرے درجے کا ذکر ہے اور کبھی صرف زبان سے ہوتا ہے اور یہ ذکر کا تیسرا درجہ ہے۔ سب سے افضل ذکر وہ ہے جس میں دل اور زبان میں ہم آہنگی ہو اور صرف قلبی ذکر، صرف ذکرِ لسانی سے افضل ہے اس لیے کہ ذکرِ قلبی سے معرفت پیدا ہوتی ہے، محبت اور حیاء اُبھرتی ہے، ذکرِ قلبی خشیت کا باعث ہے اور مراقبے کی استعداد پیدا کرتا ہے اور طاعات میں کوتاہی سے روکتا ہے اور نافرمانیوں اور بد اعمالیوں کو حقیر سمجھنے سے باز رکھتا ہے اور ذکرِ لسانی تنہا ایسے کوئی نتائج پیدا نہیں کرتا اور اگر کوئی اثر پیدا کرے بھی تو بہت ہلکا ہوتا ہے۔‘‘ بیعتِ طریقت بیعتِ طریقت کے بارے میں حضرت والد علیہ الرحمہ کی رائے وہی تھی جس کا اظہار حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ |