کی دلیل نہیں اور نہ ان آثار و کوائف کے وجود سے مقبولیت پر استدلال کیا جا سکتا ہے۔ صفحہ 13 ۔۔ الغرض ذکر لطائف و سلطان الاذکار وغیرہ سے مقصود و اصلی یہ ہے کہ ذاکر کے دل و دماغ میں ایک مستحکم و راسخ ملکہ یادداشت پیدا ہو جائے جس کی وجہ سے اکثر اوقات مقصود سے ذہول و غفلت نہ ہو بلکہ ذکر میں مشغول رہے، اسی کثرت کو صوفیہ کے کلام میں دوامِ ذکر سے تعبیر کیا جاتا ہے، جسے ہم عدم ذہول سے بھی تعبیر کر لیتے ہیں کیونکہ ہر شے کا دوام اس کی مناسبت سے ہوا کرتا ہے۔ مثلاً زید کہتا ہے کہ میں ہمیشہ پانچوں نمازیں پڑھتا ہوں، تو اس فقرہ میں ’’ہمیشہ‘‘ سے مراد روزانہ ہو گی اور عمر کہتا ہے کہ میں ہمیشہ جمعہ کی نماز ادا کرتا ہوں، تو یہاں ’’ہمیشہ‘‘ سے مراد ہر ہفتہ ہو گا اور بکر کہتا ہے کہ میں ہمیشہ عیدالفطر کی نماز پڑھتا ہوں، تو یہاں ’’ہمیشہ‘‘ سے مراد سالانہ ہو گی۔ اسی قاعدہ کے مطابق ذکر کے دوام سے مراد ذکر کے مناسب ہی ہو گا اور وہ ہے اکثر اوقات میں عدم ذہول۔ کیونکہ اوقات کے ایک ایک لمحہ کا مصروف ذکر ہونا عادت محال اور ناممکن ہے۔ نیند وغیرہ امور جو انسانی زندگی کے لیے عادتاً لازمی اور لابدی ہیں، ان میں ذہول لازمی ہے، اسی لیے بعض حضرات صوفیہ نے لفظِ دوام کا استعمال ترک کر دیا ہے اور فرمایا ہے کہ طریقت میں مقصود کثرتِ ذکر اور دوامِ طاعت ہے جیسا کہ حافظ شیرازی نے کہا ہے: در بزم عیش یک دو قدح نوش کن برد یعنی طمع مدار وصالِ دوام را (صفحہ 15) ذکرِ لسانی افضل ہے یا ذکرِ قلبی اس بارے میں اُن کی رائے وہی تھی جس کا اظہار حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ |