Maktaba Wahhabi

366 - 458
قلب صنوبری (مضغہ لحم) اور شے ہے اور وہ قلب جو لطیفہ ہے، دوسری چیز ہے۔ قلب صنوبری جسد ظاہری کا جزو ہے اور وہ قلب جو لطیفہ ہے اس کا تعلق قلب صنوبری سے افاضہ آثار و انوار کا ہے۔ جیسے حکماء بیان کرتے ہیں کہ نفس ناطقہ مجرد ہے اور جزو بدن نہیں مگر اس کا تعلق بدن سے تصرف و تدبیر کا ہے۔ ایسے میں بقیہ لطائفِ اربعہ کا بھی خاص خاص مقامات جسم سے ایسا ہی تعلق ہے۔ اسی تعلق کی وجہ سے جب ذاکر لطائف سے ذکر کرنا چاہتا ہے تو اُن لطائف کے خاص خاص مقامات کی جانب جن کو ان لطائف سے تعلق ہے، توجہ کرتا ہے۔ اسی لیے جب لطیفہ قلب کو ذاکر بنایا جاتا ہے، تو قلب صنوبری کی جانب توجہ کی جاتی ہے۔ علیٰ ہذا القیاس دوسرے لطائف بھی۔ (صفحہ 5) الَا وهي القلب کی تشریح حدیث شریف میں ہے: ((أَلَا وَإِنَّ فِي الْجَسَدِ مُضْغَةً إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، وَإِذَا فَسَدَتْ فَسَدَ الْجَسَدُ كُلُّهُ، أَلَا وَهِيَ الْقَلْبُ)) اس کی بناء پر یہ شبہ وارد ہو سکتا ہے کہ جس قلب کی اصلاح سے سارے جسم کی اصلاح ہو جاتی ہے، اسے مُضْغَةً فرمایا، تو یہ تو قلبِ صنوبری ہوا، نہ کہ لطیفہ قلب۔ اس کے متعلق حضرات مشائخ نے یہ فرمایا ہے کہ اس میں شک نہیں کہ حدیث میں ’’قلب‘‘ سے مراد گو لطیفہ قلب نہیں بلکہ مُضْغَةً ہی مذکور ہے مگر یہ حکم ’’إِذَا صَلَحَتْ صَلَحَ الْجَسَدُ كُلُّهُ‘‘ کا دراصل اسی لطیفہ قلب کا ہے۔ جس کو مُضْغَةً یا قلب صنوبری سے غایت اتصال اور تعلق کی وجہ سے ذکر فرمایا، جیسے حالت ادراکیہ کو صورت علمیہ سے تعبیر کرتے ہیں۔ (صفحہ 6) حضرت نے ’’معارف اللطائف‘‘ میں اس بات کی بھی وضاحت کی ہے کہ لطائف کی مشق کسی کی ولایت کی دلیل نہیں اور اصل مقصود دوامِ ذکر کا حصول اور ملکہ یادداشت کا رسوخ ہے۔ اسی مقالے میں یوں رقمطراز ہیں: ’’یہ بات اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ لطائف کے آثار کا ظہور و تحقق ولایت
Flag Counter