صوفیاء لطائف خمسہ کے ساتھ نفس کے آثار و احوال سے بھی بحث کرتے ہیں، اس لیے بعض بزرگوں نے مقاصدِ تصوف کے لحاظ سے نفس کو تغلیباً لطائف میں شمار کر کے لطائف ستہ قرار دئیے ہیں۔ صفحہ 201 مشائخِ نقشبند کے ہاں لطائفِ خمسہ میں سے ہر لطیفہ کو علیٰحدہ علیٰحدہ ذاکر بنانے کی مشق کرائی جاتی ہے۔ حضرت حاجی امداد اللہ صاحب مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ اور مولانا اشرف علی تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی رائے یہ ہے کہ صرف قلب سے ذکر کی مشق کی جائے اور محض لطیفہ قلب کے مسلسل اور پیہم ذکر سے وہ تمام ثمرات اور نتائج حاصل ہو جاتے ہیں جو لطائف کی مشق سے حاصل کیے جاتے ہیں۔ [1] یہ حضرات لطائف کی طرف تفصیلی توجہ کو حجاب سمجھتے ہیں۔ مشائخ کا اختلاف تفصیل کے ساتھ بیان کرنے کے بعد حضرت والد علیہ الرحمۃ حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی رحمہ اللہ کے طریقے کو ترجیح دیتے ہیں۔ حضرت لکھتے ہیں: ’’احادیث میں ایسے امور کے سلسلہ میں صرف قلب ہی کا ذکر آتا ہے اور چونکہ لطائف کا شغل رکھنے والے حضرات کے نزدیک لطائفِ خمسہ میں باہم اتصال ہے، اس لیے صرف ذکر قلب سے ہی بقیہ لطائف میں آثار و افعال مذکورہ سرایت کر جاتے ہیں کیونکہ یہ مرایا متعاکسہ کی طرح ہیں۔‘‘ صفحہ 5 اس کے بعد ’’معارف اللطائف‘‘ میں یہ بحث کی گئی ہے کہ لطیفہ قلب اور قلبِ صنوبری (مضغہ لحم) کا آپس میں کیا تعلق ہے اور اِس مشہور حدیث شریف کی تشریح کی گئی ہے کہ جسم میں ایک لوتھڑا ہے جب سنور جاتا ہے تو سارا جسم سنور جاتا ہے اور جب وہ بگڑ جاتا ہے تو پورا جسم بگڑ جاتا ہے اور دیکھو وہ دل ہے۔ فرماتے ہیں: ’’اس سلسلہ میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ حضرات صوفیاء کے نزدیک |