Maktaba Wahhabi

363 - 458
معارف اللطائف میں یوں رقمطراز ہیں: ’’صوفیائے کرام کے اشغال کو بعض حضرات اس لیے پسند نہیں کرتے کہ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے یہ منقول نہیں، لیکن اگر ذرا دقتِ نظر سے یہ حضرات دیکھتے تو ان پر یہ واضح ہو جاتا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو ان اشغال و مراقبات کی ضرورت ہی نہ تھی کیونکہ ان کو سید الانبیاء والمرسلین کی صحبت کے فیوض سے بہرہ ور اور آپ کے انفاسِ طیبہ کی برکات سے مستفیض ہونے کی سعادت حاصل تھی اور اس فیضان کی وجہ سے صحابہ کرام کے قلوب و اذہان ایسی قوی اور کامل استعداد کے مالک تھے کہ اُن کو ان اشغال و مراقبات کو واسطہ مقصود بنانے کی ضرورت نہ تھی۔ فرائض و سنن کی بجا آوری، محرمات بلکہ مشبہات سے اجتناب ہی ان اشغال وغیرہ کے ثمرات کے حصول کے لئے کافی تھے۔ اس کی مثال یوں سمجھیے کہ علوم مروجہ (صرف و نحو اور مرتب فقہ و اصول فقہ) صحابہ کرام کے عہد مبارک میں مدون نہیں ہوئے تھے کیونکہ عرب ہونے کی وجہ سے وہ قواعد صرف و نحو کے محتاج نہ تھے اور عام مسائل دریافت کرنے میں آپ کی ذات بابرکات ہی کافی تھی لیکن بعد میں جب اسلام جزیرۃ العرب سے نکل کر عجم میں پہنچا اور خاص آپ کی ذاتِ اقدس سے بُعد ہوتا چلا گیا، ہر قسم کی ظاہری اور باطنی ضروریات اور حلِ مشکلات کے لیے تدوینِ علوم کی ضرورتوں کا احساس ہوتا گیا۔ علماء کرام اور ائمہ ہدیٰ نے بہت جلد باحسن وجوہ ان ضرورتوں کو پورا کیا۔ محدثین جمع و تدوینِ حدیث اور فقہ الحدیث کے مرتب کرنے، فقہاء، قانونِ اسلام کے مدون کرنے اور اصول احکام کے مرتب کرنے کی طرف متوجہ ہو گئے اور بعض اہل علم نے امانتِ باطنی کی حفاظت اور اس کی اصلاح کی طرف اپنی توجہات کو منعطف کیا، جن کی برکت سے اصلاحِ نفس، تزکیہ نفس اور مجاہدہ نفس کے قواعد مرتب ہوئے اور دنیا ان کے فیوض و برکات روحانی سے مستفیض ہوئی۔ جزاهم الله عنّا و عن سائر المسلمين احسن الجزاء ص 18، 19
Flag Counter