Maktaba Wahhabi

362 - 458
’’یہ بزرگانِ کرام کا اجتہاد ہے۔‘‘ میں نے عرض کیا: اِس اجتہاد کی علت کیا ہے؟ فرمانے لگے: نزولِ انوار دافعِ وساوس ہوتا ہے، پھر انوارِ رسالت بالخصوص انوارِ رسالت محمدیہ بدرجہ اتم دافعِ وساوس تھے۔ جب انوارِ رسالت منقطع ہو گئے، تو وساوس اُبھرنے لگے اور عبادت میں جمعیت خاطر اور یکسوئی باقی نہ رہی۔ قرآن کے اس حکم پر عمل مشکل ہوا کہ اُٹھتے بیٹھتے پہلو بدلتے ہوئے اللہ کا ذکر کرو۔ حدیث میں ہے کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام ہر وقت اللہ کا ذکر کرتے تھے۔ انوارِ رسالت کے منقطع ہو جانے کی وجہ سے دوامِ ذکر ممکن العمل نہ رہا۔ پس دوامِ ذکر حاصل کرنے کے لیے اور عبادت میں جمعیتِ خاطر اور یکسوئی پیدا کرنے کے لیے بزرگانِ کرام نے اجتہاد کیا۔ فرمایا: اگر معاملات میں اجتہاد ہو سکتا ہے تو عبادات میں جمعیتِ خاطر پیدا کرنے کے لیے اجتہاد کیوں نہیں ہو سکتا۔ پھر ایک اور شام بندہ عاجز ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں بتایا کہ بعض علماء سے اشغالِ صوفیہ پر مجھے گفتگو کا اتفاق ہوا ہے اور وہ انہیں بدعات اور محدثات قرار دیتے ہیں۔ حضرت والد علیہ الرحمہ کی پیشانی پر شکن پڑ گئی اور فرمانے لگے: ’’ان علماء کا ذہن صاف ہونا چاہیے۔ جب وہ ان اشغال کو بدعات قرار دیتے ہیں، تو دوسرے لفظوں میں وہ معاذ اللہ ۔۔۔ خاکم بدہن یہ کہتے ہیں کہ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ بدعتی تھے، حضرت مجدد الف ثانی رحمہ اللہ بدعتی تھے، حضرت شاہ عبدالعزیز رحمہ اللہ، حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمہ اللہ اور حضرت قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہ اللہ سب بدعتی تھے۔ ایک طرف تو یہی علماء ہندوستان میں اپنی تاریخ کا آغاز ان ہی بزرگوں سے کرتے ہیں اور ان کے ساتھ نسبت ملاتے ہیں، دوسری طرف ان بزرگوں کے اجتہادات کو بدعت قرار دیتے ہیں۔ اس منطقی تضاد سے انہیں نجات پانی چاہیے۔‘‘
Flag Counter