Maktaba Wahhabi

361 - 458
’’حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے بعثت کے بعد جو کام سرانجام دیا، قرآن مجید اُسے متعدد جگہوں پر یوں بیان کرتا ہے: ﴿يَتْلُوا۟ عَلَيْهِمْ ءَايَـٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ ٱلْكِتَـٰبَ وَٱلْحِكْمَةَ﴾ یہ جو بار بار خدا کہتا ہے: ﴿يُزَكِّيهِمْ﴾ یعنی وہ اُن کا تزکیہ کرتے ہیں۔ اسی تزکیہ کے اصول و آداب کو ہم طریقت یا تصوف سے تعبیر کرتے ہیں۔ افسوس ہے کہ ہماری درسگاہوں میں تعلیم، کتاب و حکمت کا تو اہتمام کیا جاتا ہے لیکن تزکیہ نفس جس کا ذکر قرآن مجید تعلیمِ کتاب و حکمت کے علاوہ الگ مستقل بالذات بار بار کرتا ہے، اس کا قطعی طور پر کوئی اہتمام نہیں۔‘‘ میں نے اُن سے پوچھا: ’’کیا تصوف کی مروجہ اصطلاحات کا استعمال آپ کے نزدیک درست ہے؟‘‘ تو حضرت نے فرمایا: ’’جیسے محدثین کی اصطلاحات ہیں، فقہاء کی اصطلاحات ہیں، صرفیوں اور نحویوں کی اصطلاحات ہیں، اسی طرح تزکیہ نفس کا علم جب باضابطہ طور پر مرتب اور مدون ہوا تو اصطلاحات ناگزیر تھیں۔‘‘ ایک دن فقہ اور تصوف میں فرق بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’بات بڑی سیدھی ہے۔ وضو کن باتوں سے ٹوٹتا ہے؟ نماز کن باتوں سے باطل ہوتی ہے؟ یہ فقہ ہے اور نماز میں حضور کیسے حاصل ہو؟ رقت اور خشیت کیسے حاصل ہو اور سینے سے چکی کے چلنے کی آواز کیسے آئے؟ یہ تصوف ہے اور دونوں کا ماخذ کتاب و سنت ہے۔‘‘ اشغالِ صوفیہ کی شرعی حیثیت میں نے ایک روز اُن کی خدمت میں عرض کیا کہ یہ جو صوفیاء کے ہاں لطائف کی مشق ہے، نفی اثبات کا مخصوص طریقہ ہے یا حبسِ دم کا شغل ہے، کیا یہ بدعات ہیں؟ تو حضرت نے فرمایا:
Flag Counter