درہردم گر ہزار دریا بکشی کم باید بود خشک لب باید بود ’’اللہ کی راہ میں سراپا ادب رہنا چاہیے جب تک جسم میں جاں باقی ہے، تلاش جاری رہنی چاہیے۔ اگر ہر سانس میں فیضان کے ہزار دریا بھی تو پی جائے، تو پھر بھی کم ہے اور ہونٹ خشک رہنے چاہئیں۔‘‘ حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ اپنے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کا جو ادب اور احترام کرتے تھے، بڑے ذوق و شوق سے بیان فرماتے۔ اپنے شیخ حضرت خواجہ باقی باللہ رحمۃ اللہ علیہ کے صاحب زادوں کے نام حضرت مجدد الف ثانی رحمۃ اللہ علیہ کے ایک خط کی یہ عبارت سناتے: ’’ایں فقیر ازسرتا قدم غرقِ احسانہائے والدِ بزرگوارِ شما است۔ دریں طریق سبقِ الف ب را از ایشاں گرفتہ است و تہجی حروف ایں راہ را از ایشاں آموختہ۔‘‘ [1] ’’یہ فقیر سر سے پاؤں تک آپ کے والدِ ماجد کے احسانات میں ڈوبا ہوا ہے اور اس راستے میں ابجد ہوّز بھی انہی سے حاصل کی تھی۔‘‘ ’’اگر در مدتِ عمر سرِ خود را پائمال اقدام خدمہ عتبہ علیہ شما کردہ باشد ہیچ نہ کردہ باشد۔‘‘ [2] ’’اگر زندگی بھر آپ کے آستانہ عالیہ کے خادموں کے پاؤں تلے اپنے سر کو پامال کروں، تو بھی نیاز مندی کا حق ادا نہیں ہوتا۔‘‘ فرماتے کہ شیخ علاؤ الدین سمنانی رحمۃ اللہ علیہ اگرچہ اپنے مشائخ سے ایک اعتبار سے آگے نکل گئے تھے۔ مگر فرماتے یہی تھے: ’’اگر سرِمن بآسماں ساید، ہنوز خاکِ آستانہ مشائخ من بالا باشد۔‘‘ ’’اگر میرا سر آسمان سے بھی جا لگے، تو میرے مشائخ کے آستانے کی خاک بھی مجھ سے برتر ہے۔‘‘ |