اس کے صبر و استقامت کو نہ سمجھا اور ان تمام جاہلانہ رسموں کی تقلید کی جن سے خود سید الشہداء اور ان کے جد امجد علیہم الصلوٰۃ والسلام نے منع فرمایا تھا۔ پس آئیے کہ دنیا کی مجالسِ ماتم میں ایک نئے حلقہ ماتم کا اضافہ کریں اور زخم رسیدہ دلوں کو خون آلودہ آنسوؤں کا چشمہ بنانے کی بجائے خود واقعہ شہادت کو اسرارِ شریعت کا سرچشمہ بنائیں اور حضرت امام کی شہادت کے تذکار میں ایسی مجلس منعقد کریں جو عبرت و بصیرت کا پورا سامان اپنے ساتھ رکھتی ہو۔ جو واقعہ شہادت کی حقیقی عظمت کو پورے طور پر بے نقاب کر دے۔ جو سینہ کوبی اور ماتمی بین کی چیخ پکار کی بجائے صبر و برداشت، عزیمت و استقامت، ایثار و قربانی، جاں نثاری و فدائیت اور شہادت و فنا فی سبیل الحریت کا درس دے۔ [1] بزرگوں کا ادب بزرگوں کا غایت درجہ ادب فرماتے تھے اور اُن کا نام نہایت احترام سے لیتے تھے۔ اگر کوئی بزرگوں کی شان میں گستاخی کرتا یا کسی امام کا نام لیتے ہوئے آداب کو ملحوظ نہ رکھتا تو سخت برہم ہوتے اور بعض حالتوں میں، طبیعت اس قدر مکدر ہوتی کہ اُس آدمی سے گفتگو ہی موقوف فرما دیتے۔ ائمہ کرام اور اولیاء اللہ کے ادب پر ہر سال دوچار خطبے ضرور دیتے تھے۔ اُن کی آواز میرے کانوں میں اب بھی گونج رہی ہے۔ وہ مولانا روم رحمہ اللہ کا یہ شعر پڑھتے: از خدا خواھیم توفیقِ ادب بے ادب محروم ماند از فضلِ رب ’’ہم خدا سے ادب کی توفیق چاہتے ہیں۔ بے ادب اللہ کے فضل و کرم سے محروم ہے۔‘‘ یہ بھی فرماتے کہ حضرت خواجہ محمد پارسا رحمۃ اللہ علیہ نے وصیت کی تھی: اندر رہِ حق جملہ ادب باید بود تاجاں باقی است در طلب باید بود |