میرے بعد تم ان سے کس طرح کا سلوک کرتے ہو۔‘‘ پس جس خاندان نبوت کی محبوبیت اور محمودیت کا یہ مرتبہ ہو، اس کی محبت و عشق میں جتنی بھی گھڑیاں کٹ جائیں اور جتنی بھی راتیں آنکھوں میں بسر ہوں اور اُن کی تعریف و توصیف میں جس قدر بھی زبانیں زمزمہ پیرا ہوں، یقیناً روح کی سعادت اور دل کی طہارت اور انسانیت کا حاصل ہے۔‘‘ [1] امام حسین علیہ السلام سے عقیدت حضرت امام حسین علیہ السلام کا ذکر والہانہ شیفتگی سے کرتے اور اُن کی تنقیص کرنے والوں سے اُنہیں شدید کراہت تھی۔ امام حسین علیہ السلام سے ان کی محبت و عقیدت کا اندازہ ان کے مقالے ’’اُسوہ حسین رضی اللہ عنہ‘‘ کی ابتدائی عبارت سے کیا جا سکتا ہے: ’’سیدنا و امامنا حسین بن فاطمہ بنت رسول اللہ (صلوٰة اللهِ وسلامه، عليهم اجمعين) کی شہادت کا واقعہ جو شریعت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بے شمار بصیرتیں اپنے اندر پنہاں رکھتا تھا۔ افسوس کہ وہ بھی افراط و تفریط کی دست درازیوں سے محفوظ نہ رہ سکا۔ افسوس کہ ماتمی مجالس کی چیخ و پکار اور ماتمیوں کی سینہ کوبی کے شور میں اس کی صدائے عبرت انگیز گم ہو گئی۔ آہ! اشکبار آنکھوں کے آنسوؤں کے سیلاب میں اس کا سارا سامانِ عبرت و بصیرت بہہ گیا۔ افسوس! اس کی ساری عظمت و بزرگی تعزیوں کے ساتھ ہی زمین میں دفن کر دی گئی۔ آہ! دشمن اور دوست دونوں نے اس کے ساتھ بے انصافی کی۔ دشمن نے اس واقعہ شہادت پر خوشیاں منائیں اور اس کی عظمت کو اپنے جور و استبداد کے زور سے مٹانے کی کوشش کی، لیکن دوست نے بھی اس کے حقیقی شرف سے غفلت برتی اور مختلف بدعات اور شرکیہ رسوم کے تاریک پردوں میں اس کو چھپایا۔ دشمنوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا کہ اس کی دعوتِ حق اور صبر و استقامت اور جہاد فی سبیل الحریت کو بری شکل میں پیش کیا، لیکن دوست نے دوست ہو کر بھی اس کی دعوت قبول نہ کی اور |