Maktaba Wahhabi

35 - 458
کا تفاوت کوئی نادیدہ واقعہ نہیں۔ جب تک انسان اس دنیا میں موجود ہیں، یہ تفاوت و اختلاف موجود رہے گا، مگر اس کی بناء پر محکم بنیادی خدمات کو فراموش کر جانا اور جزئیات کو محلِ نزاع بنانا اور وہ بھی سراسر غلط مفروضات کی بناء پر نہایت افسوسناک ہے۔ کبھی آپ نے سوچا کہ اس ذہنیت کی ہئیت ترکیبی کیا ہے؟ محض یہ کہ جب اپنے دامن میں فضائل و محاسن کے وہ جواہر ریزے موجود نہیں جن سے مولانا داؤد مرحوم اور ان کے ہزاروں رفیقوں کے دامن مالا مال ہوئے، جب وطن، ملت اور دین کے لیے ایثار کی وہ متاعِ عزیز نصیب نہ ہو سکی جو مولانا داؤد اور ان کے رفیعتوں کی زندگی کا خاص سرمایہ ہے، تو مناسب یہی ہے کہ ان جواہر ریزوں اور اس متاعِ عزیز پر غلط بیانی اور حق شناسی کا پردہ ڈال کر اپنے لیے ایک مقام پیدا کیا جائے۔ لیکن یہ بری حرکات ہیں اور اس قسم کی حرکات سے نہ حسنِ عمل کی روشنی ماند پڑ سکتی ہے اور نہ بے عملی کا اندھیرا اُجالا بن سکتا ہے۔ میرے سامنے اس مسئلے کے متعدد پہلو ہیں جن پر بحث کروں تو مقالہ بہت طویل ہو جائے گا لیکن میں اپنے غلط بھائی سے صرف یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ شخصیتوں کے موازنے کا جو معیار اس کے پیشِ نظر ہے، اس کی بناء پر وہ کہیں، ملتِ اسلامیہ کے مجاہد قرار دیتا ہے؟ کیا ان لوگوں کو جن کی صفیں مختلف الزامات کے سلسلے میں خالص وقت کے لیے سیاسی دائرے سے باہر نکل چکی ہیں یا نکالی جا چکی ہیں اور آج ان کی مزعومہ عظمت کے کھنڈر جا بجا دیکھنے والوں کے لیے سرمایہ عبرت ہیں؟ ان کی خدمات کا جائزہ لے کر فیصلہ کرنے والے بھی موجود ہیں۔ کیا یہی حقیقت کافی بصیرت افروز نہیں؟ ایک واجب الاحترام مجاہد بہرحال میں ایک بلند منزلت عالم، ایک عالی ہمت اور بےباک مجاہد آزادی و اسلامیت کے تذکرے کو ایسی ناخوشگوار بحث سے آلودہ نہیں کرنا چاہتا۔ مولانا داؤد رحمہ اللہ اس دور کی ایک بہت بڑی شخصیت تھے۔ دور دور تک نظر جاتی ہے مگر ایسا جامع اوصاف وجود کہیں نظر نہیں آتا۔ زندگی میں ان سے بیسیوں افراد کو اختلافات بھی پیش آئے اور خود مجھے بھی بعض اوقات ان سے اختلاف کرنا پڑا۔
Flag Counter