لیکن یہ بہت ہی چھوٹی اور حقیر باتیں ہیں۔ ان کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ مولانا کی عظمت، ان کی عزیمت، ان کے ایثار، علم و فضل، زہد و تقویٰ اور عشقِ دین سے قطع نظر کیا جائے۔ اُنہوں نے عنفوانِ شباب سے کم و بیش تیس (30) برس تک ملک و قوم اور دین کے لیے مجاہدانہ خدمات انجام دیں اور جب ان کی صحت اچھی نہ رہی تو وہ گوشہ نشین ہو گئے اور یہ دور بھی انتہائی سلامت روی سے گزارا۔ کبھی کسی سے پرخاش گوارا نہ کی۔ اچھے اور نیک کاموں میں سب کا ساتھ دیا۔ وہ فطرتاً متوازن اور مستقیم تھے۔ اختلاف رائے کے وقت بھی سب کے ساتھ محبت، بہی خواہی اور خیر سگالی کا برتاؤ جاری رکھا۔ عداوت کو ان کے دلی خلوص کی منزل میں کبھی بار نہ ملا۔ وہ اس اسلامی قافلہ کے آخری افراد میں سے تھے جن کی خدمات کے نقوش دورِ حاضر کی تاریخ کا ایک بیش بہا سرمایہ ہیں۔ وَآخِرُ دَعْوَانَا أَنِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِينَ |