Maktaba Wahhabi

34 - 458
جب مولانا داؤد رحمہ اللہ اور ان کے ہزاروں رفیقوں نے ترکِ موالات کے پروگرام کو لباسِ عمل پہنایا تھا اور قربانیوں کی امتحان گاہ میں مردانہ وار قدم رکھا تھا، تو حکومتِ برطانیہ پہلی عالمی جنگ میں کامیابی حاصل کر کے دنیا کی ایک بے پناہ قوت بنی ہوئی تھی اور اس قوت کے غرور و تکبر پر ضربیں لگانا درحقیقت ایک آہنی دیوار سے سر ٹکرانا تھا۔ جن مجاہدوں نے اس حصار کی بنیادوں میں تزلزل پیدا کرنے کا بیڑا اُٹھایا تھا اُن کی غیرت و حمیت، شانِ استقامت، کمال عزیمت اور بے لوث ایثار میں کسی کے لیے بھی کلام کی گنجائش نہ تھی۔ تاہم مادی قوت کے ہمالیہ کو ریزہ ریزہ کر ڈالنا آسان نہ تھا۔ ان مجاہدوں کے سامنے یہ امر نہ تھا کہ نتیجہ مقصد کے مطابق برآمد ہو گا یا نہ ہو گا۔ محض یہ تھا کہ ادائے فرض کا تقاضا کیا ہے۔ البتہ وہ جانتے تھے اور یقین رکھتے تھے کہ باطل بظاہر کتنا ہی مضبوط و مستحکم کیوں نہ ہو وہ حق کے سامنے ٹھہر نہیں سکتا اور یہی ہوا۔ وہی ضربیں تھیں جنہوں نے پہلی مرتبہ یہاں برطانوی تسلط کے حصار میں رخنے پیدا کیے۔ پھر بار بار کے اقدامات سے وہ رخنے بڑھتے اور پھیلتے گئے یہاں تک کہ برطانوی تسلط ایک افسانہ پارینہ بن کر رہ گیا۔ اگر حق و انصاف اس دنیا سے رخصت نہیں ہو گئے، تو کون ہے جو ان مجاہدوں کے احترام میں ایک لمحے کے لیے بھی متامل ہو گا جو سب سے پہلے آگے بڑھے اور جنہوں نے ہراول میں ہونے کا شرف حاصل کیا۔ یہی لوگ تھے جنہوں نے بنجر اور افتادہ زمینوں کو جانفشانیوں اور سر بازیوں سے ہموار کیا۔ ان میں نہریں جاری کیں۔ کیا یہ امر محلِ تعجب اور باعثِ حیرت نہیں کہ آج ان زمینوں کی پیداوار سے فائدہ اُٹھانے والے لوگ پیشروؤں کی محنتوں اور مشقتوں سے بے پروا ہو جائیں یا انہیں فراموش کر دیں؟ ایک افسوسناک معاملہ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ پچھلے دنوں ہمارے ایک بھائی نے غلط مقدمات کی بناء پر ایک غلط نتیجہ پیشِ نظر رکھ کر مولانا داؤد رحمہ اللہ کے متعلق ایسے الفاظ استعمال کیے جو موت کی سوگواری کے موقع پر کسی کے لیے بھی زیبا نہیں سمجھے جا سکتے۔ مختلف امور و معاملات کے باب میں رائے کا اختلاف اور فکر و نظر
Flag Counter