تَطْهِيرًا﴾ (سورہ احزاب) ’’اے اہل بیت! خدا کو تو بس یہی منظور ہے کہ تم سے ہر قسم کی میل کچیل دور کر دے اور تم کو ایسا پاک و صاف کر دے جیسا پاک و صاف ہونے کا حق ہے۔‘‘ اور جن کی عزت و عظمت کا یہ عالم ہو کہ قرآن کریم میں مسلمانوں کو ان پر صلوٰۃ و سلام بھیجنے کا حکم دیا گیا ہو: ﴿إِنَّ ٱللَّـهَ وَمَلَـٰٓئِكَتَهُۥ يُصَلُّونَ عَلَى ٱلنَّبِىِّ ۚ يَـٰٓأَيُّهَا ٱلَّذِينَ ءَامَنُوا۟ صَلُّوا۟ عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا۟ تَسْلِيمًا﴾ ’’اللہ اور اُس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے رہتے ہیں۔ مسلمانو! تم بھی اس پر درود و سلام بھیجتے رہو۔‘‘ جس کی تشریح کے لیے ایک صحابی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا: ((أمَرَنَا اللَّهُ تَعَالَى أنْ نُصَلِّيَ عَلَيْكَ يا رَسولَ اللهِ، فَكيفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟)) ’’ہمیں اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کا حکم دیا ہے، ہمیں بتائیے کہ کس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجا کریں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں ارشاد فرمایا، یوں کہو: ((اللَّهُمَّ صَلِّ علَى مُحَمَّدٍ وعلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كما صَلَّيْتَ علَى آلِ إبْرَاهِيمَ وبَارِكْ علَى مُحَمَّدٍ وعلَى آلِ مُحَمَّدٍ كما بَارَكْتَ علَى آلِ إبْرَاهِيمَ في العَالَمِينَ، إنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ)) (صحیح مسلم، ج اول) اور جن کی محبت و مؤدت اس درجہ مطلوب و منظور ہو کہ قرآن کریم میں اس کے لیے یوں ارشاد ہو: ﴿قُل لَّآ أَسْـَٔلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا ٱلْمَوَدَّةَ فِى ٱلْقُرْبَىٰ﴾ ’’آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) اس کا اعلان کر دیجئے کہ میں تم لوگوں سے تبلیغِ رسالت پر کوئی مزدوری نہیں مانگتا، مگر اقرباء |