کچھ نہیں جانتے تھے (معاذ اللہ) تو یہ سوء ادب ہو گا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں سوء ادب کفر کی حد تک پہنچا دیتا ہے کیونکہ قرآن کریم میں حق تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق یہ آداب بیان فرمائے ہیں۔ ’’اور اپنی آوازیں پیغمبر (صلی اللہ علیہ وسلم) کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو، اس طرح ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔‘‘ (الحجرات:2) ’’پیغمبر کے بلانے کو ایسا خیال نہ کرنا جیسا کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو بلاتے ہو‘‘ (نور: 63) یعنی رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ادب اور تعظیم سے بلانا چاہیے۔ پس یوں کہنا چاہیے کہ مغیبات کا علم حق سبحانہ و تعالیٰ ہی کو ہے لیکن اُس نے بعض غیب کی باتوں کا علم اپنے رسولِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا ہے۔ یہ تو ہے تکونیات کے متعلق۔ رہا شرعیات کا علم جو انبیاء کرام کے منصب سے متعلق ہے، اس بارہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا علمِ اولین و آخرین سے بڑھ کر ہے اور وہ علوم و معارف حق تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو مرحمت فرمائے ہیں کہ کسی انسان کی طاقت میں نہیں کہ ان سب پر حاوی ہو سکے۔ يا رب صلِ وسلم دائماً ابداً عليٰ حبيبك خير الخلق كُلهم [1] بزرگوں سے مرادیں مانگنا حضرت والد علیہ الرحمۃ ہر اُس بات سے جس میں شرکِ جلی یا شرکِ خفی کا ہلکا سا بھی شائبہ ہوتا یا جس بات کے منجر الی الشرک ہونے کا احتمال ہوتا، شدت سے منع فرماتے تھے۔ فرماتے تھے کہ بزرگوں کی قبروں پر جا کر اُن سے مرادیں مانگنا شرکِ جلی ہے۔ عربوں کے جس فعل کی بناء پر قرآن مجید انہیں مشرک ٹھہراتا ہے، وہ یہی تھا کہ وہ اپنی مصیبتوں اور حاجتوں میں اللہ کے سوا اپنے بزرگوں کو پکارتے اور اُن سے مدد چاہتے تھے اور ان کو اسی فعلِ شنیع |