Maktaba Wahhabi

340 - 458
جیسا کہ سمیع، بصیر، علیم اور متکلم۔ خالق و مخلوق میں جس طرح مشابہت اور مماثلت نہیں ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ﴾ اسی طرح ان کی صفات میں بھی مشابہت اور مماثلت نہیں، جس طرح ہم یہ ایمان رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ سنتا ہے، دیکھتا ہے، کلام فرماتا ہے جیسا کہ اس کی شانِ اقدس کے لائق ہے، اسی طرح ’’اِسْتَوَاء عَلَي العَرْش‘‘ کے متعلق بھی یہی ایمان ہونا چاہیے کہ ’’استواء كما يليق بشانهٖ‘‘ جیسا اس کی شانِ ارفع کے لائق ہے اسی طرح اسے ’’اِسْتَوَاء عَلَي العَرْش‘‘ سے متصف مانتے ہیں۔‘‘ [1] حضرت والد علیہ الرحمہ کے ہاں تشدد اور غلوم نہ تھا۔ مسلک میں اعتدال تھا۔ بزرگانِ کرام کے لیے لفظ ’’سیدنا‘‘ کے استعمال میں کوئی مضائقہ نہ سمجھتے تھے۔ ایک موقع پر حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ارشاد فرمایا تھا: ’’السَّيِّدُ هو اللهُ‘‘ یعنی حقیقی معنوں میں سیادت اللہ تعالیٰ ہی کے لیے ہے اور اسی حدیث کی بناء پر بعض علماء نے مخلوق کے لیے اس لفظ کے استعمال کو ناجائز قرار دیا۔ اس حدیث کی تشریح تعلیقات میں یوں کرتے ہیں: ’’مسند امام احمد رحمہ اللہ اور سنن ابی داؤد میں پوری روایت یوں ہے کہ مطرف بن عبداللہ بن الشخیر کہتے ہیں کہ میں بنی عامر کے ایک وفد کے رُکن کی حیثیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: ’’اَنْتَ سَيَدُّنَا‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے سید ہیں تو آپ نے فرمایا: ’’السَّيِّدُ هو اللهُ‘‘، ’’سید‘‘ کا اطلاق اللہ کے لیے ہے۔ اس کے بعد ہم نے کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہم سب میں عظیم المرتبت اور افضل ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ہاں! یوں کہو یا اس کے کوئی ہم معنی لفظ کہہ سکتے ہو۔‘‘ وفود میں جو لوگ حاضر خدمت اقدس ہوتے تھے ان میں سے اکثر نئے نئے حلقہ اسلام میں داخل ہوئے تھے۔ ایسے لوگوں کے لیے احتیاط کے طور پر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایسے الفاظ و آداب سے بھی منع فرماتے تھے جن سے
Flag Counter