Maktaba Wahhabi

339 - 458
تعالیٰ کا قُرب حاصل کرنا ممکن نہیں۔ اُن کا یہ گماں تھا کہ اُن سے جو پہلے نیک لوگ گزرے ہیں اُنہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت اور اطاعت کر کے اس کے ہاں ایسا بلند مقام حاصل کر لیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں خلقت الوہیت سے سرفراز فرمایا ہے اور ان کو اس عالم کے بعض اُمور میں تصرف کا اختیار دے دیا ہے۔ اُن کا یہ بھی عقیدہ تھا کہ یہ بزرگ سنتے ہیں، دیکھتے ہیں، اپنے پرستاروں کی سفارشیں کرتے ہیں۔ ان کی حاجت روائی اور مشکل کشائی میں مدد کرتے ہیں اور معاملات کی تدبیر انہی سے متعلق ہے۔ اسی خیال سے اُنہوں نے پتھروں کے بت اُن بزرگوں کے نام پر بنائے اور ان بزرگوں کی ارواح کی طرف متوجہ ہونے کے لیے ان مادی صورتوں کو وسیلہ اور ذریعہ بنایا اور بالآخر نوبت یہاں تک پہنچی کہ پچھلے لوگوں نے اپنے اسلاف سے ایک قدم اور آگے بڑھایا اور ان بتوں کو ہی اصل سمجھنے لگ گئے اور خود انہی کو معبود اور حاجت روا قرار دے دیا۔ یہی وجہ ہے کہ حق سبحانہ و تعالیٰ نے قرآن کریم میں اُن مشرکین کے باطل عقائد کی تردید میں کبھی تو اس پر تنبیہ کی ہے کہ تمام کام اللہ ہی کے حکم سے سرانجام پاتے ہیں اور وہی سب کا مالک اور اسی کے قبضہ قدرت اور تصرف میں سب کچھ ہے اور کوئی دوسرا اس کا شریک نہیں اور کبھی اس بناء پر ملامت کی ہے کہ وہ محض پتھر کی مورتیوں کی پوجا کرتے ہیں۔‘‘ [1] صفات الٰہی حضرت والد علیہ الرحمہ نے تعلیقات میں ’’اِسْتَوَاء عَلَي العَرْش‘‘ پر یہ نوٹ دیا ہے: ’’اِسْتَوَاء عَلَي العَرْش‘‘ اللہ تعالیٰ کی صفاتِ کاملہ میں سے ایک صفت ہے۔ صفاتِ الٰہی کے متعلق یہ بات ہمیشہ یاد رکھنی چاہیے کہ نصوصِ قرآن و حدیث میں کئی ایسے الفاظ حق سبحانہ، و تعالیٰ کی صفات کے لیے استعمال کیے گئے ہیں جو مخلوق کے لیے بھی استعمال کیے جاتے ہیں۔
Flag Counter