نہیں بیان کرتا۔‘‘ حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے بھی اسی قسم کے الفاظ مسند امام احمد رحمہ اللہ میں منقول ہیں۔ فرماتے ہیں: ((ما كل الحديث سمعناه من رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يحدثنا أصحابه عنه كانت تشغلنا عنه رعية الإبل)) ’’تمام احادیث ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بلا واسطہ نہیں سنی ہیں۔ ہمارے ساتھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے احادیث سنتے اور ہمیں وہ احادیث بیان کر دیتے اس لیے کہ ہم اونٹوں کو چرانے میں مشغول رہتے تھے۔‘‘ غرض محدود و معاشی ذرائع کی وجہ سے مہاجرین کو اپنے اہل وعیال کی پرورش کے لیے عموماً بیوپار یا صنعتی کاروبار میں مشغول ہونا پڑتا تھا۔ جس گاؤں کا حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ذکر کیا ہے یہاں آپ کی نگرانی میں کپڑا بُننے کے کرگھے تھے اور سخ نامی گاؤں میں حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کا کارخانہ تھا۔ انصار عموماً اپنے باغات اور کھیتوں میں مصروف رہتے تھے۔ لیکن بایں ہمہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احوال و وقائع اور ارشادات و نصائح کے سننے اور یاد کرنے کا خاص شغف ان میں موجود تھا جس کی برکت سے احادیث کا وہ ذخیرہ تابعین نے ان سے حاصل کیا اور تابعین سے اُمت نے۔ حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: وبعد از قرآن اصل دین و سرمایہ یقین علم حدیث است و آنچہ امروز از علم حدیث بدست مردمان است ساختہ و پرداختہ شیخین است بآں سبب کہ جملہ صالحان از حدیث شیخین خود روایت کردہ اند، نہ پنداری کہ شیخین ہمیں قدر روایت کردہ اندکہ درکُتب اسانید بالیشاں نسبت کردہ مے شود، بلکہ بسیارے از احادیث مرفوعہ کہ درمسانید مکثرین از صحابہ مذکور است۔بحقیقت روایت شیخین است کہ عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ و ابوہریرہ رضی اللہ عنہ آں را ارسال نمودہ اندد بآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رفع کردہ و اہل مسانید ظاہر آں را اعتبار کردہ در مسانید |