ایشاناں درنمودہ اند۔‘‘ (قرۃ العنین ص 55) ’’یعنی قرآن کریم کے بعد اصل دین اور سرمایہ یقین علمِ حدیث ہے اور یہ جو آج علمِ حدیث کا ذخیرہ لوگوں کے پاس موجود ہے یہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ہی تو ساختہ پرداختہ ہے۔ بات یہ ہے کہ اکثر صحیح احادیث ان ہر دو حضرات ہی کی مروی ہیں اور یہ خیال نہ کرنا کہ حضرات شیخین سے صرف وہی احادیث مروی ہیں جو کتبِ حدیث میں ان کی طرف منسوب ہیں، بلکہ بہت سی مرفوع احادیث جو کتبِ حدیث میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم سے مروی ہیں، حقیقت میں حضرات شیخین ہی کی روایات ہیں۔ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ان روایات کو مرسلاً روایت کر کے مرفوع حدیث ذکر کر دیتے ہیں اور کتب حدیث کے مصنفین ان روایات کی ظاہری صورت کا اعتبار کر کے اپنی اپنی کتابوں میں انہی صحابہ رضی اللہ عنہم کی روایات میں درج کر دیتے ہیں۔‘‘ __________________ آپ نے دیکھا کہ اس خطبہ کو پڑھتے ہوئے جذبات کی تطہیر بھی ہوتی ہے اور کتاب و سنت کا علم بھی حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ اسوہ رسول میں ڈوب جانے کی دلیل ہے کہ خطاب ﴿ يُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ ﴾ کی سراپا تفسیر بن جائے۔ |