(الحدیث) (جامع بیان العلم: ص 93) ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے ایک صحابی کے بارے میں مجھے معلوم ہوا کہ ان کے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث مظالم سے متعلق ہے۔ (اس حدیث کا علم اس صحابی سے براہِ راست حاصل کرنے کے لیے) میں نے ایک اونٹ خریدا اور پالان ڈالا اور شام کی طرف روانہ ہوا۔ ایک ماہ تک برابر چلتا رہا۔ حتیٰ کہ میں شام پہنچ گیا اور عبداللہ بن انیس انصاری (جن کے نام سے انہیں حدیث پہنچی تھی) کے گھر پہنچا۔ اُن کے مکان کے اندر کسی قاصد کو بھیجا اور کہا اطلاع کر دو تمہارے دروازے پر جابر کھڑا ہے۔ قاصد نے واپس آ کر پوچھا کہ کیا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ ہیں؟ میں نے کہا: ہاں۔ یہ سن کر عبداللہ بن انیس باہر نکل آئے۔ دونوں ایک دوسرے سے بغلگیر ہوئے۔ علیک سلیک کے بعد جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے پوچھا مجھے آپ کے نام سے ایک حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پہنچی ہے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک دوسرے پر ظلم کرنے اور اس کی سزا سے متعلق فرمائی ہے۔ (میں نے یہ حدیث خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنی ہے) آپ نے یہ حدیث سنی ہے؟ عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے جواب میں کہا، ہاں۔ میں نے خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے۔ (اس کے بعد عبداللہ بن انیس رضی اللہ عنہ نے پوری حدیث سنائی)۔‘‘ صحیح بخاری کی روایت میں یہ الفاظ زائد ہیں: ’’مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ کے پاس ایک حدیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ہے۔ مجھے یہ خوف دامن گیر ہوا کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ سے اس حدیث کے سننے سے پہلے میں فوت ہو جاؤں۔‘‘ (فخشيت ان اموت قبل ان اسمعه) ذرا اندازہ کیجیے اس عشق و شیفتگی کا کہ ایک حدیث جو صحابی کے ذریعے معلوم ہو چکی ہے لیکن اب براہ راست اس صحابی سے حدیث سننے کے لیے شام کے سفر کا قصد کرتے ہیں۔ خاص اس مقصد کے لیے ایک اونٹ خریدتے ہیں، ایک ماہ کا برابر سفر کرتے ہیں |