کرتا، لیکن میں عرض کروں گا کہ اس کے لیے شمائلِ ترمذی کو دیکھئے اور اپنے ایمان کو تازہ کیجئے۔ اور اندازہ کیجئے کہ جن لوگوں نے آپ کے چہرہ مبارک اور آپ کے قدوقامت اور شمائل کے لیے اس قسم کی قلمکاری کی ہے۔ وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و نصائح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے معمولات کے حفظ کرنے اور اس کے بار بار کے تذکرے سے لطف اندوز ہونے میں کوتاہی کرتے ہوں گے؟ حدیث کے زندہ نسخے اب میں آپ کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے بے پایاں شوقِ حدیث کے بعض واقعات عرض کرنا چاہتا ہوں جس سے آپ اندازہ کر سکیں گے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثِ پاک کے لیے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دل میں کس قدر عزت و احترام تھا اور اس کے حصول کے لیے جو ذوق و شوق ان کے اندر تھا اس کی مثال تاریخِ عالم میں کہیں نہیں مل سکتی۔ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کا گھر مدینہ ہی میں تھا اور ان مقتدر اصحابِ کرام میں سے ہیں، جن کو ’’مکثّرین‘‘ کہا جاتا ہے۔ ابن جوزی نے اپنی کتاب ’’تنقیح‘‘ میں لکھا ہے کہ ان سے ایک ہزار پانچ سو چھ حدیثیں مروی ہیں اور حافظ ابن حجر رضی اللہ عنہ نے اصابہ میں لکھا ہے کہ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا ایک حلقہ درس تھا جس میں لوگ ان سے علمِ حاصل کرتے تھے۔ آپ اس جلیل القدر صحابی کا اپنا بیان سنیے، فرماتے ہیں: ((بلغني حديثٌ عن رجُلٍ من أصحابِ النَّبيِّ صلَّى الله عليه وسلَّم، فابتعتُ بعيرًا، فشدَدتُ عليه رَحليَ، ثمَّ سِرْتُ إليه، فسرتُ شهرًا، حتَّى قدمتُ الشَّامَ، فإذا عبدُ الله بن أُنيسٍ الأنصَاريُّ، فأتيتُ منزلَه، فأرسلتُ [إليه] أنَّ جابرًا على البابِ، فرجعَ الرَّسولُ إليَّ، فقال: جابرُ بنُ عبد الله؟ قلتُ: نعم، فرجعَ إليه، فخرجَ فاعتنقْتُه واعتنقَنِي، قلتُ: حديثٌ بَلَغني أنَّك سمعتَه من رسولِ الله صلَّى الله عليه وسلَّم في المظالِم لم أسمَعْهُ، قال: سمعتُ رسولَ الله صلَّى الله عليه وسلَّم يقولُ)) |