Maktaba Wahhabi

326 - 458
((لأَنْ تَكُونَ عِنْدِي شَعَرَةٌ مِنْهُ أَحَبُّ إِلَىَّ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا)) ’’میرے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ایک بال ہونا اس درجہ محبوب ہے کہ دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے، وہ سب کچھ اس کے مقابلے میں ہیچ ہے۔‘‘ خدارا بتائیے کہ جن لوگوں کا قلبی اور روحانی تعلق نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اس قسم کا ہو کہ ایک مُوئے مبارک بھی ان کے نزدیک دنیا ومافیہا سے زیادہ محبوب ہو، تو اُن کے نزدیک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و فرمودات اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نصائح و وقائع زندگی کس درجہ محبوب ہوں گے اور کیا یہ علم النفس کا مسلمہ مسئلہ نہیں کہ جب کسی سے محبت سچی ہوتی ہے اور دل کی گہرائیوں میں اس کی محبوبیت اُتر چکی ہو تو محبِ صادق اپنے محبوب کی باتوں کے ذکر کرنے میں لذت حاصل کرتا ہے؎ لها احاديث من ذكراك تشغلها عن الشراب و تلهيها عن الزاد بلکہ حالت یہ ہو جاتی ہے کہ اس کی باتوں کو یاد کر کے وہ کھانے پینے سے بھی بے نیاز ہو جاتا ہے اور اس کی ایک ایک ادا کو یاد رکھتا ہے۔ اس کے نقش و نگار کے لیے بہتر سے بہتر تشبیہات تلاش کرتا ہے اور اس کی سی عادت اپنے اندر پیدا کرنے کو موجب فخر سمجھتا ہے۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم جنہوں نے اپنا مال و جان سب کچھ آپ پر قربان کر رکھا تھا اور وہ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے نفس، اپنے ماں باپ، اپنے خاندان بلکہ سارے عالم سے زیادہ محبوب سمجھتے تھے، وہ کیونکر دنیا کے عاشقوں سے کم تر ہو سکتے ہیں۔ یقیناً ہم دیکھتے ہیں کہ وہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال و احوال کے حفظ میں اور پھر اس کا ایک دوسرے سے مذاکرہ کرنے میں اس درجہ شوق اور انہماک رکھتے تھے کہ پوری انسانیت کی تاریخ میں اس کی مثال نہیں مل سکتی۔ کسی ماہر فن مصور اور قادر الفن نقاش کی مصوری و نقاشی کیا مثال پیش کر سکتی ہے، اس تصویر کی جو حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ہند بن ابی ہالہ رضی اللہ عنہا نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حلیہ مبارک بیان کرنے میں پیش کی ہے۔ اگر طولِ کلام کا خوف نہ ہوتا، تو میں اسے ضرور ذکر
Flag Counter