موقع پر قریش کے سامنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی والہانہ محبت و عقیدت کا نقشہ ان الفاظ میں پیش کرتے ہیں: ((أيْ قَوْمِ، واللَّهِ لقَدْ وفَدْتُ علَى المُلُوكِ، ووَفَدْتُ علَى قَيْصَرَ، وكِسْرَى، والنَّجَاشِيِّ، واللَّهِ إنْ رَأَيْتُ مَلِكًا قَطُّ يُعَظِّمُهُ أصْحَابُهُ ما يُعَظِّمُ أصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ مُحَمَّدًا، واللَّهِ إنْ تَنَخَّمَ نُخَامَةً إلَّا وقَعَتْ في كَفِّ رَجُلٍ منهمْ، فَدَلَكَ بهَا وجْهَهُ وجِلْدَهُ، وإذَا أمَرَهُمُ ابْتَدَرُوا أمْرَهُ، وإذَا تَوَضَّأَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ علَى وضُوئِهِ، وإذَا تَكَلَّمَ خَفَضُوا أصْوَاتَهُمْ عِنْدَهُ، وما يُحِدُّونَ إلَيْهِ النَّظَرَ تَعْظِيمًا له)) (صحیح بخاری) ’’اے میری قوم! خدا کی قسم مجھے بادشاہوں کے دربار میں حاضری کا موقع ملا ہے۔ قیصرِ روم، کسریٰ ایران، نجاشی (شاہِ حبش) کے ہاں باریابی حاصل ہوئی ہے۔ بخدا میں نے کسی بادشاہ کے لوگوں کو اتنی عظمت کرتے ہوئے نہیں دیکھا جتنی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھی محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی کرتے ہیں۔ بخدا جب وہ تھوکتا ہے تو وہ ضرور کسی نہ کسی کے ہاتھ پر گرتا ہے، پھر وہ اسے اپنے چہرے اور بدن پر مل لیتا ہے۔ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) جب کسی بات کا انہیں حکم دیتے ہیں، اس کی تعمیل کی طرف جھپٹ پڑتے ہیں۔ جب محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) وضو کرتے ہیں، تو وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے وضو کے پانی پر آپس میں اُلجھ پڑتے ہیں۔ جب وہ بات کرتے ہیں تو سب کی آوازیں پست ہو جاتی ہیں۔ حد یہ ہے کہ وہ کمالِ عظمت کی وجہ سے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی طرف نگاہ بھر کر بھی نہیں دیکھ سکتے۔‘‘ آپ اندازہ کیجئے کہ یہ ایک دوست کی نہیں، ایک دشمن کی شہادت ہے۔ پس جس جماعت کی گہری محبت، دلی اُلفت اور روحانی عقیدت کا یہ عالم ہو کہ تھوک اور وضو کے پانی پر ایک دوسرے سے سبقت لے جانے میں گویا آپس میں اُلجھ رہے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مُوئے مبارک کو گویا دنیا و مافیہا سے زیادہ محبوب سمجھتے ہوں۔ جیسا کہ صحیح بخاری میں ہے کہ حضرت عبیدہ رضی اللہ عنہ جنہیں حضرت انس رضی اللہ عنہ خادم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے ایک مُوئے مبارک ہاتھ آ گیا ہے، فرماتے ہیں: |