کہ قدرتی طور پر ان کو اپنے حافظہ پر بھروسا کرنا پڑتا تھا۔ عربوں کے حافظہ کی قوت کے جو واقعات کتابوں میں ملتے ہیں، سچ تو یہ ہے کہ کتابوں اور نوشتوں پر مدار رکھنے والی قومیں مشکل سے ان کو باور کر سکیں گی۔ ((كان احدهم يحفظ اشعار بعض في سمعة واحدة)) (جامع) ’’ان میں بعض لوگ ایسے بھی تھے جو صرف ایک دفعہ سن کر لوگوں کے اشعار یاد کر لیا کرتے تھے۔‘‘ حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ ان کے سامنے عمر بن ابی ربیعہ شاعر آیا اور ستر اشعار کا ایک طویل قصیدہ پڑھا۔ شاعر کے چلے جانے کے بعد ایک شعر کے متعلق کچھ گفتگو چلی۔ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اُس نے فلاں مصرعہ یوں پڑھا تھا۔ دوسرے شریکِ مجلس نے کہا کہ تمہیں پہلی دفعہ میں کیا پورا مصرعہ یاد رہ گیا؟ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہو تو پورے ستر شعر سنا دوں؟ اُس نے کہا: ہاں سنائیے۔ آپ نے اسی ترتیب کے ساتھ ستر (70) شعر سنا دئیے۔ علاوہ اس کے کہ عرب کا حافظہ قدرتی طور پر غیر معمولی تھا، اس کے ساتھ یہ بھی نظر آتا ہے کہ جس ذات پاک نے قرآن مجید کے متعلق ﴿إِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ﴾ کا اعلان کیا تھا۔ اُس نے قرآن کی عملی شکل یا قرآن کی تبیین و تشریح یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و نصائح اور وقائع زندگی کی حفاظت کا کام جن کے سپرد کر دیا تھا، ان کے حافظوں کو غیبی تائید کے ذریعہ سے بھی کچھ غیر معمولی طور پر قوی تر کر دیا تھا۔ صحیح بخاری میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا یہ قصہ تفصیل کے ساتھ مذکور ہے۔ جب اُنہوں نے دربارِ رسالت میں نسیان کی شکایت کی۔ تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خاص توجہ اور دعا کی برکت سے ان کا حافظہ ایسا قوی ہو گیا کہ پھر وہ کوئی چیز بھول نہیں سکتے تھے۔ اس قوت حافظہ کی برکت سے ان کے پاس اتنا ذخیرہ جمع ہو گیا کہ کسی دوسرے صحابی کے پاس نہ تھا۔ لوگوں کو ان کی کثرتِ |