کے ساتھ اُن کا کوئی تعلق نہ تھا، جس سے معلوم ہو سکے کہ عرب ان سے علمی استفادہ کرتے تھے۔ اس لیے ان کا تمام تر دارومدار حافظہ پر تھا۔ یہاں یہ بھی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ عرب کے اُمی ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ وہ علمی مشاغل سے بالکل بے بہرہ تھے۔ اُن کا سب سے بڑا دماغی مشغلہ شعر و شاعری تھا۔ وہ عرب قبائل کے انساب سے بھی دلچسپی رکھتے تھے لیکن یہ صحیح ہے کہ معمولی نوشت و خواند کا سلسلہ چند گنے چنے لوگوں تک محدود تھا۔ عام طور پر ان میں لکھنے پڑھنے کا مزاج نہ تھا۔ ان کو اپنے حافظہ پر بڑا اعتماد تھا اور فخر تھا، بلکہ زبانی یاد رکھنے کی کچھ فطری سی عادت اُن کی تھی۔ حافظ ابن عبدالبر لکھتے ہیں: ((مَذْهَب الْعَرَب اِنَّهُمْ كَانُوْا مطبوعين عَلي الْحِفْظ مخصوصين بِذَلك)) (جامع) ’’عرب کی عام حالت یہ تھی کہ وہ زبانی یاد رکھنے کی فطری عادت رکھتے تھے اور اس بارہ میں ان کو خاص خصوصیت حاصل تھی۔‘‘ عرب کے ایک شاعر کا کہنا ہے؎ ليس بعلم ما حوي القمطر ما لعلم الّا ما حواهُ الصدر ’’علم وہ نہیں جو کتابوں میں درج ہو، علم صرف وہی ہے جو سینہ میں محفوظ ہو۔‘‘ دوسرا شاعر کہتا ہے؎ علمي معي حيث ما يمت احمله بطني و عاءٌله لا بطن صندوق ’’میرا علم میرے ساتھ ہے، جہاں جاتا ہوں اُٹھائے لیے جاتا ہوں۔ میرا بطن اس کا محافظ ہے نہ کہ صندوق شکم۔‘‘ ان كنت في البيتِ كان العلم معي اذا كنتُ في السوق كان العلم في السوق ’’اگر گھر میں رہتا ہوں تو علم میرے ساتھ ہوتا ہے، جب بازار جاتا ہوں، تو میرا علم بھی بازار میں ہوتا ہے۔‘‘ ان اشعار سے اس قوم کے خاص رجحان کا پتا چلتا ہے۔ اس خاص مذاق کا یہ نتیجہ تھا |