نے قرآن کی تبیین و تشریح اپنے ذمہ لی۔ پس یہ ناممکن ہے کہ قرآن کریم حسبِ وعدہ الٰہی قیامت تک محفوظ رہے، مگر اس کی شرح گم ہو جائے یا محفوظ نہ رہے۔ قرآن کریم کا دنیا میں بطورِ ذکر و ہدایت محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن مجید اپنے تمام متعلقات کے ساتھ محفوظ رہے، یعنی نہ صرف پیغمبرانہ تشریح تا ابد قرآنِ کریم کے ساتھ محفوظ رہے بلکہ عربی زبان اور عربی قواعد بھی محفوظ رہیں۔ اب مجھے آپ کے سامنے یہ بیان کرنا ہے کہ وہ کون سا محیر العقول یا فوق العادۃ نظام ہے جس کے ذریعہ قرآن کریم کے بعد حدیث کی حفاظت کی گئی اور حفظِ قرآن کے بعد حفظِ حدیث کا بے پناہ شوق پیدا کیا گیا اور حفظِ حدیث کے لیے بے مثال قوتِ حافظ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین اور اُن کے شاگردوں کو بخشی گئی۔ حفظِ حدیث کے عوامل ذرا ان اسباب و دواعی پر نظر ڈالیے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو حفظِ کتاب و سنت کے لیے میسر ہوئے اور جن کی بدولت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات و نصائح اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مبارک زندگی کے احوال و وقائع محفوظ ہو گئے اور اس طرح محفوظ ہوئے کہ دنیا کے کسی فاتح، کسی حکمران، کسی شہنشاہ، کسی فلسفی غرض کسی بڑے سے بڑے انسان کی زندگی کے احوال و وقائع اس طرح محفوظ نہیں ہوئے جس طرح رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے محفوظ ہیں۔ پہلا عامل جس عہد میں کتاب و سنت کی حفاظت و اشاعت کی ذمہ داری قدرت کی جانب سے ان لوگوں کے سپرد ہوئی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے نام سے پکارے جاتے ہیں، دنیا جانتی ہے کہ وہ اُمی تھے، وہ خط و کتابت سے کوئی زیادہ آشنا نہ تھے۔ سوائے معدودے چند افراد کے ان کی اکثریت علمی اور کتابی مشاغل سے ناآشنا تھی اور اِس وقت کی دو متمدن قوموں مشرق میں ایرانی اور مغرب میں رومیوں |