اس کے ساتھ اس حیرت انگیز امر کو بھی دیکھئے کہ قرآن مجید کے حفاظ بنانے اور مدرسہ ہائے حفظِ قرآن قائم کرنے میں ملوک و سلاطین کی قوت و دولت و سطوت کو کوئی دخل نہیں رہا۔ مسلمانوں نے ازخود ہمیشہ حفظِ قرآن کے لیے اپنی والہانہ عقیدت مندوں کا ثبوت پیش کیا اور ہمیشہ رضائے الٰہی کے حصول کے لیے اس خدمت کو اپنی زندگی کا محبوب مشغلہ بنائے رکھا۔ یہ ہے جو میں آپ سے کہہ رہا ہوں کہ حفظِ قرآن کے لیے اللہ تعالیٰ نے حیرت انگیز مافوق العادۃ نظام قائم کیا اور قیامت تک کے لیے اسے ہر قسم کی تحریف سے محفوظ رکھنے کا وعدہ فرمایا۔ دوسرا وعدہ ﴿ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَهُ وَقُرْآنَهُ ﴿١٧﴾ فَإِذَا قَرَأْنَاهُ فَاتَّبِعْ قُرْآنَهُ ﴿١٨﴾ ثُمَّ إِنَّ عَلَيْنَا بَيَانَهُ ﴿١٩﴾ ﴾ (القیامۃ: ع 1) ’’قرآن کا یاد کرا دینا اور پڑھا دینا، ہمارے ذمہ ہے۔ پس ہم جب (جبرائیل کے ذریعہ) قرآن پڑھ چکیں تو اس کے بعد آپ اس کو دہرائیں، اِس کے بعد قرآن کی تشریح بیان کرنا بھی ہمارے ذمہ ہے۔‘‘ جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے، شروع میں جس وقت حضرت جبرائیل اللہ کی طرف سے وحی لاتے تو اُن کے پڑھنے کے ساتھ رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی دل میں پڑھتے جاتے تھے تاکہ بروقت اسے یاد کر لیں، مبادا جبرائیل علیہ السلام کے چلے جانے کے بعد وحی پوری طرح محفوظ نہ ہو سکے۔ مگر اس صورت میں آپ کو بڑی دقت ہوتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حالت کو دیکھتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ نزولِ وحی کے وقت پڑھنے اور زبان ہلانے کی حاجت نہیں، ہمہ تن متوجہ ہو کر سننا ہی چاہیے۔ یہ فکر نہ کیجئے کہ وحی یاد نہیں رہے گی۔ وحی الٰہی کا تمہارے سینے میں حرف بحرف جمع کرنا اور آپ کی زبان سے پڑھوا دینا ہمارے ذمہ ہے۔ اس لیے معلوم ہوا کہ ایک تو قرآن ہے، دوسری چیز اس کی تشریح و توضیح۔ اس تشریح و توضیح کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رائے پر نہیں چھوڑا گیا، بلکہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ |