Maktaba Wahhabi

315 - 458
قوت حافظہ، اِن کا بے مثل عزم و علو ہمت، پھر اسماء الرجال اور فنِ حدیث کے مجتہدین کا پیدا ہونا، پھر ان کا کمال انہماک و خود فراموشی، پھر اُمت کا شوقِ حدیث اور عالم اسلام میں اس کی مقبولیت اور اشاعت، یہ سب واقعات اس بات کا ثبوت ہیں کہ جمعِ قرآن کی طرح اللہ تعالیٰ کو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صحیفہ زندگی کو بھی محفوظ کرنا مقصود تھا۔ اس کی برکت سے حیاتِ طیبہ کا امتداد اور تسلسل باقی رہا۔ یعنی اُمت کو ہر دَور میں روحانی، علمی اور ایمانی میراث ملتی رہی جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو براہِ راست حاصل ہوئی تھی۔ اس طرح صرف عقائد و احکام و شرائع ہی میں ’’توارث‘‘ کا سلسلہ جاری نہیں رہا بلکہ تزکیہ نفس، ذوقِ ایمانی اور مزاجِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی توارث کا سلسلہ جاری رہا۔ اُمت کی تاریخ میں کوئی مختصر سے مختصر زمانہ ایسا نہیں آیا جب وہ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا ذوق اور مزاج مفقود اور یکسر ناپید ہو گیا ہو۔ ہر دَور میں ایسے افراد رہے جو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی اس رُوحانی اور ایمانی میراث کے وارث تھے یعنی وہی عبادت کا شوق، وہی زہد و تقویٰ، وہی خشیت و انابت الی اللہ، وہی استقامت و عزیمت، وہی دنیا سے بے رغبتی اور آخرت کا شوق، وہی جذبہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر، وہی بدعات سے نفرت اور جذبہ اتباعِ سنت۔ اُمتِ محمدیہ کا یہ ذوقی، روحانی اور عملی توارث قرنِ اول سے چودہویں صدی کے عہدِ انحطاط تک برابر قائم ہے اور اویس قرنی، سعید بن المسیب، ابو سفیان ثوری، عبداللہ بن مبارک اور امام احمد بن حنبل رحمہ اللہ سے لے کر حضرت سید احمد شہید رحمہ اللہ اور حضرت عبداللہ غزنوی رحمہ اللہ تک کی زندگی میں ان کا پر تو صاف نظر آتا ہے اور جب تک حدیث کا یہ ذخیرہ باقی، اور اس سے استفادہ کا سلسلہ جاری اور اس کے ذریعہ عہدِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا اسلامی معاشرہ محفوظ ہے، دین کا یہ صحیح مزاج جس میں آخرت کا خیال دنیا پر، سنت کا اثر رسم و رواج پر، روحانیت کا اثر مادیت پر غالب ہے، باقی رہے گا اور کبھی اُمت محمدیہ کو سرتاپا مادیت، انکارِ آخرت اور بدعات و تحریفات کا پورے طور پر شکار نہیں ہونے دے گا، بلکہ اس کے اثر سے ہمیشہ
Flag Counter