کرتا ہے، کس طرح بار بار (چار دفعہ) بارگاہِ نبوت میں حاضر ہوتا ہے اور عرض کرتا ہے: یا رسول اللہ! مجھے پاک کیجیے اور خوشی خوشی سنگساری کی سزا برداشت کرتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کی حالت کو دیکھ کر فرماتے ہیں: ((لَقَدْ تَابَ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ أُمَّةٍ لَوَسِعَتْهُمْ )) (صحیح مسلم) ’’اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ایک پوری اُمت پر تقسیم کر دی جائے، تو سب کو کافی ہو۔‘‘ اس کے بعد غامدیہ آتی ہے اور وہ بھی اقرارِ جرم کرتی ہے اور کہتی ہے: ’’یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! مجھ سے زنا کی غلطی سرزد ہو گئی ہے، مجھے پاک کیجئے۔‘‘ وہ حاملہ ہے۔ اسے حضور واپس کر دیتے ہیں۔ وضعِ حمل کے بعد پھر آتی ہے۔ پھر واپس کر دیتے ہیں۔ جب بچے کا دودھ چھڑایا، پھر واپس آتی ہے اور عرض کرتی ہے، اب تو مجھے پاک کر دیجیے۔ اسے سنگساری کا حکم دیا جاتا ہے۔ خود نمازِ جنازہ پڑھاتے ہیں۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ عرض کرتے ہیں کہ اس زانیہ پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنازہ پڑھتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: ((لَقَدْ تَابَتْ تَوْبَةً لَوْ قُسِمَتْ بَيْنَ سَبْعِينَ مِنْ أهْلِ المَدِينَةِ لَوَسِعَتْهُمْ، وَهَلْ وَجَدْتَ أَفضَلَ مِنْ أَنْ جَادَتْ بنفْسِها لله)) (صحیح مسلم) ’’اس نے ایسی مخلصانہ توبہ کی کہ اگر مدینہ کے ستر لوگوں میں تقسیم کی جائے، تو اُنہیں کفایت کر جائے اور اس سے افضل توبہ کیا ہو سکتی ہے کہ اس نے اللہ کے حکم کے آگے خود اپنے آپ کو پیش کر دیا۔‘‘ اللہ اللہ! دیانت و امانت اور اخلاص کے کیسے کیسے نادرۂ روزگار واقعات ہیں کہ انسانی تاریخ میں ان کی مثال نہیں مل سکتی۔ مدائن فتح ہو جاتا ہے۔ تاجدارانِ آلِ ساسان کے بیش بہا خزانے صحابہ رضی اللہ عنہم کے ہاتھ آتے ہیں۔ ترغیباتِ نفس اور خواہشات پر کتنا قابو ہے اور اللہ تعالیٰ کے حاضر و ناظر ہونے پر کتنا ایمان ہے۔ قبیلہ عبدِ قیس کا ایک |