ہیں۔ لیکن وہ کہتی ہے۔ مجھے دکھاؤ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ پاتی ہے، تو کہتی ہے: ((كل مصيبة بعدك جَلَل)) ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم سلامت ہیں تو سب مصیبت ہیچ ہے۔‘‘ دوستو! یہ جو میں تم سے کہتا ہوں کہ زندگی زندگی سے ملتی ہے اور دئے سے دیا جلتا ہے، دیکھتے نہیں کہ وہ فضالہ بن عمیر رضی اللہ عنہ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شہید کرنے کے لیے گھر سے نکلا ہے اور آپ کو خانہ کعبہ کا طواف کرتے دیکھا۔ جب قریب پہنچا، تو آپ نے فرمایا: ’’کون؟‘‘ اس ’’کون‘‘ کے لفظ میں کتنی مقناطیسی طاقتیں تھیں کہ وہ فضالہ جو آپ کی جان مبارک لینے کے لیے آیا ہے، کہتا ہے: میں فضالہ ہوں۔ فرمایا: کیا سوچ کر آئے ہو۔ عرض کرتا ہے کچھ نہیں۔ آپ ہنس دیتے ہیں اور فرماتے ہیں: فضالہ اللہ کے آگے توبہ کر، پھر اپنا دستِ مبارک اُس کے سینے پر رکھ دیتے ہیں۔ فضالہ کا قلب پُرسکون ہو جاتا ہے اور مدینہ کی گلیوں میں کہتا پھرتا ہے، خدا کی قسم آج سے محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ محبوب دنیا میں کوئی چیز میرے لیے نہیں ہے۔ وہ عورت جو اس سے دل لگی کی باتیں کیا کرتی تھی، ملتی ہے اور کہتی ہے۔ آؤ دوست کچھ باتیں کریں۔ وہی فضالہ کہتا ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے بعد اب اس قسم کی باتوں کی کوئی گنجائش نہیں ہے، میں اسلام قبول کر چکا ہوں، جاؤ چلی جاؤ۔ وہ کیسا اخلاقی مدرسہ اور روحانی تربیت گاہ تھی جو اپنے طالب علم کے اندر محاسبہ نفس کا جذبہ پیدا کرتی ہے۔ ٹھیک اس وقت جب کوئی آنکھ دیکھنے والی نہیں ہوتی اور بشری کمزوری کی وجہ سے نفسِ امارہ کسی گناہ پر آمادہ کر دیتا ہے، تو اس کا نفسِ امارہ کس طرح نفسِ لوامہ بن جاتا ہے۔ دل کی پھانس چین نہیں لینے دیتی۔ ضمیر ملامت کرتا ہے، گناہ کا خیال کر کے بے چین ہو جاتا ہے اور قانون کے سامنے اقرارِ جرم کر کے سخت سے سخت سزا کو برضا و رغبت قبول کرتا ہے۔ وہ ماعز بن مالک اسلمی جو زنا کے جرم کا ارتکاب |