یہ کہا ہے کہ ’’اگر مدینہ واپسی ہوئی تو جو معزز ہو گا وہ ذلیل کو نکال دے گا‘‘ ۔۔ اس کا انتقام ضرور لوں گا۔ جب لوگ مدینہ واپس پہنچے تو عبداللہ بن ابی کا بیٹا عبداللہ مدینہ کے دروازے پر تلوار لیے اپنے باپ کے انتظار میں کھڑا نظر آتا ہے اور جب باپ آتا ہے تو کہتے ہیں: ’’خدا کی قسم! تم مدینہ میں رسول اللہ کی اجازت کے بغیر نہیں رہ سکتے۔‘‘ لوگ ہر چند سمجھاتے ہیں، لیکن ماں باپ، خاندان، عزیز و اقارب سب پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور اطاعت کو ترجیح دینے والا عبداللہ کہتا ہے: ’’خدا کی قسم! یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اجازت کے بغیر مدینہ میں قدم نہیں رکھ سکتا۔‘‘ اطاعت اور فرمانبرداری کا کیسا عجب منظر دیکھنے میں آتا ہے جب کہ سعد بن معاذ انصاری غزوہ بدر سے پہلے اپنی اور اپنی قوم کی وفاداری اور اطاعت شعاری کا یقین دلاتے ہوئے عرض کر رہے ہیں: ’’یا رسول اللہ! ہمارے مال و دولت میں سے جو چاہیں لے لیں اور جو چاہیں دے دیں۔ جو کچھ آپ ہم سے لے لیں گے، وہ اس سے زیادہ محبوب ہو گا جو آپ چھوڑ دیں گے اور جس بارے میں جو حکم فرمائیں گے، ہم اس کے تابع ہوں گے۔ خدا کی قسم! اگر آپ سمندر میں گھوڑا ڈال دیں گے تو ہم بھی اس میں کود پڑیں گے۔‘‘ محبت و جاں نثاری کے ایسے واقعات نظر آتے ہیں کہ عشاق و اہل محبت کی تاریخ میں کبھی سننے میں نہیں آئے۔ یہ دیکھئے حضرت خبیب رضی اللہ عنہ کو پھانسی کے تختہ پر چڑھایا گیا ہے۔ کفار کہتے ہیں کہ اب تو تم پسند کرو گے کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تمہاری جگہ ہوں۔ وہ کہتے ہیں: ’’خدا کی قسم! میں یہ بھی پسند نہیں کرتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاؤں میں کانٹا چبھے اور میں چھوٹ جاؤں۔‘‘ یہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ غزوہ اُحد میں جن کے جسم پر ستر زخم تیر اور تلوار کے ہیں۔ ان کی تلاش میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے جاتے ہیں۔ جب انہیں مقتولین |