ہمدردی، اپنے ہمسایوں کے ساتھ حسنِ سلوک، اپنے مہمانوں کے ساتھ فیاضانہ میزبانی اور اپنے دشمنوں کے ساتھ صبر و تحمل اور فتوحات کے بعد عفو و درگزر فرماتے دیکھا ہو، اُن کے اندر مکارمِ اخلاق اور انسانیتِ کاملہ کا ظہور کیوں کر نہ ہو؟ کاشانہ نبوت کے فیض یافتگان یہ جو آپ سے کہہ رہا ہوں کہ دینی ماحول، روحانی فضا اور ایمانی کیفیت کی بستی جس میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پرورش پائی۔ اس بستی کے حالات حدیث کے ذریعے سے معلوم ہو سکتے ہیں۔ اس بستی میں صرف کاشانہ نبوت کا ہی دروازہ نہیں کھلا ہوا ہے جسے دیکھنے والوں کو یہ سب نظر آتا ہے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے گھروں کے دروازے بھی کھلے ہوئے ہیں۔ ان کے گھروں کی زندگی، طرزِ معاشرت، ان کی راتوں کا سوز و گداز، ان کے دنوں کی گرمی جہاد، ان کی بازاروں میں مصروفیت، مسجدوں میں ان کی سجدہ ریزیاں، ان کی بے نفسی و للہیت، ان کا کمال انقیاد و اطاعت، ان کی بشری لغزشیں اور توبہ و انابت الی اللہ کے مناظر سب نظر آتے ہیں۔ غزوہ تبوک سے بچھڑ جانے والے کعب رضی اللہ عنہ بن مالک کی گریہ و زاری اگر نظر آتی ہے تو عمیر رضی اللہ عنہ کا یہ قول بھی سنائی دیتا ہے کہ جھولی کی کھجوریں کھانا طویل زندگی ہے، کون اس کا انتظار کرے؟ وہ نازونعم میں پلے ہوئے مصعب بن عمیر رضی اللہ عنہ کی درویشانہ زندگی اور غزوہ اُحد میں پرچم اسلام کی حفاظت میں یکے بعد دیگرے دونوں ہاتھوں کا کٹوانا اور بالآخر شہید ہو جانا بھی نظر آتا ہے۔ وہ ایک پاؤں سے معذور (لنگڑے) عمرو بن جموح رضی اللہ عنہ کا بڑے الحاح سے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے جہاد میں شرکت کی اجازت مانگنا اور اجازت مل جانے پر میدان میں اکڑتے ہوئے جاتے بھی دکھائی دے رہا ہے، وہ دعا مانگ رہا ہے: ((اللهم لا تردني اِليٰ اهلي)) ’’یا اللہ! مجھے اپنے گھر والوں کی طرف نہ لوٹائیو۔‘‘ بالآخر اس لنگڑی ٹانگ سے جہاد کرتے کرتے اس کا شہید ہو جانا بھی نظر آتا ہے۔ وہ حنظلہ رضی اللہ عنہ جس کی شادی ابھی ابھی ہوئی ہے، ہمبستری سے فارغ ہونے کے بعد ابھی غسل بھی نہیں کیا اور غزوہ اُحد میں مسلمانوں کی شکست کی خبر سن |