کو آنے والی نسلوں اور صدیوں بعد کے آنے والے انسان کے لیے یہ بالکل ممکن ہے کہ کتب حدیث کے ذریعے وہ اپنے ماحول سے کٹ کر ایک دم اس ماحول میں پہنچ جائے جہاں رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بہ نفسِ نفیس موجود اور ارشادات و نصائح سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو مستفیض فرما رہے ہیں اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہمہ تن گوش بنے ہوئے ارشاداتِ گرامی سن رہے ہیں اور اس کے ساتھ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے جذبہ اطاعت و اتقیاد کے ایمان افروز نظارے بھی دیکھنے میں آتے ہیں۔ دوستو! حدیث ایک ایسی دوربین ہے جس سے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خانگی زندگی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے معمولات، دن کی مصروفیتیں اِنہی آنکھوں سے دیکھی جا سکتی ہیں۔ ہاں ہاں آپ کے قیام و سجود کی کیفیت اِن آنکھوں سے اور آپ کی دعا و مناجات کا زمزمہ کانوں سے سنا جا سکتا ہے۔ مجھے بتلاؤ! جو آنکھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعاؤں میں گڑگڑاتے ہوئے اشک بار آنکھوں سے دیکھیں اور قدم مبارک متورم دیکھیں اور جو کان اپنے سوال کے جواب میں یہ آواز سنیں کہ ﴿أَفَلا أَكُونُ عَبْدًا شَكُورًا﴾ ’’کیا میں خدا کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔‘‘ وہ غفلت کا شکار ہو سکتی ہیں؟ اور جن لوگوں نے کاشانہ نبوت میں دو دو مہینے چولہا گرم ہوتے نہیں دیکھا، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیٹ پر پتھر باندھے ہوئے دیکھا، جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پشت مبارک پر خالی چٹائی پر لیٹے رہنے سے چٹائی کے نشانات پڑے دیکھے۔ جنہوں نے سونے سے پہلے آپ کو بے قراری کے ساتھ صدقہ کا بچا ہوا سونا راہِ خدا میں خرچ کرتے دیکھا، جنہوں نے مرضِ وفات میں چراغ کا تیل پڑوسی کے گھر سے قرض آتے ہوئے دیکھا۔ اُن سے دنیا کی حقیقت کیسے چھپ سکتی ہے اور زہد و تقویٰ کا جذبہ کیسے اُن کے اندر نہ اُبھرتا؟ دوستو! جن نفوسِ قدسیہ نے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے گھر والوں کی خدمت اپنے بچوں کے لیے سایہ شفقت، اپنے خادموں کے ساتھ رحم دلی، اپنے رفقاء کے ساتھ |