Maktaba Wahhabi

303 - 458
عربی زبان میں مہارت حاصل کیے بغیر بعض نادان قرآن مجید کے اُردو، انگریزی تراجم پڑھ کر علومِ اسلامیہ کی مہارت کے مدعی ہیں اور بزعمِ خود یہ سمجھ بیٹھے ہیں کہ ہم نے جس طرح قرآن کو سمجھا ہے، وہی صحیح ہے، اسے ہماری اصطلاح میں جہل مرکب کہتے ہیں۔ یہ لوگ کون ہیں؟ یہ وہ لوگ ہیں جنہیں انگریزی اقتدار کی خیرات سے کچھ عہدے اور اچھی تنخواہیں میسر آ گئی ہیں۔ ان کی تربیت، سرکارِ برطانیہ کے ظلِ عاطفت میں ہوئی تھی اور غلامانہ ذہنیت لے کر جوان ہوئے۔ ان کی تعلیم کا معیار اور حصولِ تعلیم کی غرض و غایت اس کے سوا اور کچھ نہ تھی کہ وہ انگریزی کی اونچی ڈگریاں حاصل کر کے ذمہ دارانہ غلامی کی جگہیں (اسامیاں) حاصل کر سکیں۔ ان بے چاروں کو علومِ کتاب و سنت کی ہوا بھی نہ لگی تھی۔ اب بدلتے ہوئے حالات میں جب کہ اجنبی آقا کا سایہ سر سے اُٹھ گیا ہے اور فضاؤں میں قرآن و سنت کی گونج سنائی دے رہی ہے تو ان کو اپنے اقتدار کے زوال کا اندیشہ ہے۔ یہ برطانوی سامراج کے فکری النسل مسلمان آزادی و غلامی، مشرقیت و مغربیت، دینداری و لادینی، عیسائیت اور اسلام کی آخری جنگ لڑ رہے ہیں۔ ان کی پہلی کوشش یہ تھی کہ اسلام نامی مذہب کی آواز بالکل دبا دی جائے اور قرآن و سنت کا کوئی تذکرہ حدودِ پاکستان میں باقی نہ رہے اور اس خداداد مملکت میں سیکولرازم (لا دینیت) کے جھنڈے بلند ہوں، مگر اس محاذ پر شکست کھا جانے کے بعد عیارانِ فن نے اپنے پینترے بدل دیے۔ اپنے آپ کو کتاب و سنت کا عالم قرار دے کر اپنے آپ ہی اپنے سروں پر دستارِ فضیلت کو پیچ دینے کی کوشش شروع کر دی اور یہ نعرہ لگایا کہ اسلام میں مُلا ازم کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس کا معنی کسی نے یہ نہیں لیا کہ یہ کٹھ مُلا کو گالی دے رہے ہیں یا یہ علماء سوء پر برس رہے ہیں بلکہ یہ سمجھا گیا کہ کہتے تو ’’مُلا ازم‘‘ ہی ہیں لیکن دراصل یہ لوگ دین و مذہب اور اس کے مسائل و اصول اور ان کی پابندی کے خلاف منافقانہ زبان استعمال کر رہے ہیں۔ یہ مذہب سے بیزار ہیں اور بیزاری کا اظہار ملا کو گالی دے کر کرتے ہیں۔ یہ فرنگی مُلا دینی علوم سے بے بہرہ ہیں اور اپنی
Flag Counter