کو مسلمانوں کی کوششوں سے حیاتِ جاوید حاصل ہوئی مگر افسوس! ضد، تعصب اور حسد نے ان کی آنکھوں پر پٹی باندھ دی اور عظمتِ انسانی کے اس بے بہا جوہر کے دیکھنے سے محروم ہو گئے۔ لیکن ان مغرب پرست مسلمانوں کو کون سمجھائے؟ جو غلامانہ ذہنیت میں مبتلا ہو کر عزتِ نفس کے احساسات سے نا آشنا ہو کر اس نعمت کے قبول کرنے سے انکار کر رہے ہیں، جو نہ صرف اسلام کی رفعت اور عظمت کی دلیل ہے بلکہ خود انسانیت کے لیے موجبِ فخر و مباہات ہے۔ یہ مستشرقین کی میز سے گرے ہوئے ٹکڑے کھانے والے مسلمان! یہ کعبہ یورپ کے شوق میں لکیر کے فقیر بنے ہوئے ہیں۔ شیدائے مغرب ہونے کے بعد یہ بدقسمت مسلمان مشرقیت سے محروم ہو ہی گئے مگر اہل مغرب میں بھی اُنہیں کوئی مقام نہیں ملا۔ یہ گھر اور گھاٹ کے درمیان روایتی کتے کی طرح چکر لگا رہے ہیں۔ فرنگی مُلا کی خطرناک چال ان مغرب پرست مسلمانوں نے اپنے آقاؤں کو دیکھا کہ انجیل ترجموں سے پڑھی جاتی ہے، اس لیے کہ اصل انجیل (اورجنل ٹیکسٹ) ناپید ہے۔ یہ بھی اپنے آقاؤں کی نقالی میں قرآن مجید کو انگریزی یا اُردو کے تراجم سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں اور بزعمِ خود اس امر کے مدعی ہیں کہ قرآن فہمی کا حق ادا ہو گیا۔ اگر ترجموں کا سہارا اتنا کامیاب ہوتا تو بلادِ عرب کے تمام باشندے علماء و فضلاء ہوتے کیونکہ وہ عربی زبان سے آشنا ہی نہیں بلکہ عربی ان کی مادری زبان ہے اور انگلستان، جرمنی، فرانس اور امریکہ کا ہر فرد ڈاکٹر، فلسفی اور سائنسدان ہوتا کیونکہ ان کے ہاں ان کی مادری زبانوں میں یہ علوم پڑھائے جاتے ہیں لیکن واقعہ اس کے خلاف ہے، نہ تو ہر عرب عالمِ قرآن و سنت ہے اور نہ ہر انگریز سائنسدان اور فلسفی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ زبان دانی اور فن دانی دو بالکل جدا چیزیں ہیں۔ فن دانی کے لیے زبان دانی بنیادی شرط ہے لیکن محض زبان دانی سے فن دانی نہیں ہوتی۔ |