میں محفوظ ہے۔صحیح احادیث کے مجموعے مؤطا امام مالک رحمہ اللہ، صحیح بخاری رحمہ اللہ، صحیح مسلم رحمہ اللہ اور دوسری کتبِ صحاح محفوظ ہیں۔ محدثین کرام کی مساعی جمیلہ کی بدولت ضعیف اور موضوع روایات چھانٹ چھانٹ کر الگ کر دی گئیں۔ راویانِ حدیث کے حالات و کوائف مرتب کرنے کے لیے اسماء الرجال کا عظیم الشان فن ایجاد کیا گیا جس کی نظیر دنیا کی تاریخ میں نہیں مل سکتی اور جس کی بدولت کئی لاکھ راویوں کے حالات اس تفصیل کے ساتھ درج ہیں ۔۔ ان کا نام، ولدیت، سکونت، دیانت، ذہنی قابلیت، قوتِ حافظہ، تقویٰ و عام کردار اور کس کس سے علم حاصل کیا اور کس کس کو پڑھایا ۔۔ اور یہ صرف اس لیے کہ یہ وہ لوگ ہیں جو نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کے اقوال و افعال اور تعلقات زندگی کے بیان کرنے والے ہیں۔ جن میں صحابہ کرام، تابعین، تبع تابعین اور بعد کے چوتھی ہجری تک کے اشخاص داخل ہیں۔ یورپ کے سامراجیوں نے اپنے دنیوی اقتدار کو سامنے رکھتے ہوئے جب اپنی مذہبی کتابوں کو اسلام کی مذہبی کتابوں کے مقابلے میں دیکھا تو انہیں بڑی مایوسی ہوئی۔ بجائے اس کے کہ وہ اسلام کی اس برتری سے متاثر ہوتے، انہوں نے قرآن مجید اور کتب حدیث کو حاسدانہ نگاہوں سے دیکھا اور محض بغض و حسد سے اس کے درپے ہو گئے کہ قرآن مجید اور پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے مکمل نقوش کس طرح متغیر کیے جائیں تاکہ اس حمامِ عالم میں سبھی ننگے نظر آئیں اور اِس طرح دنیوی سربلندی کے ساتھ دینی اُمور میں بھی علم برداری کا مقام انہیں حاصل ہو۔ وہ قوم جو تاریخ کے پرانے کتبے کھنڈروں سے تلاش کر کے فخر کرتی ہے کہ ہم نے نوعِ انسانی کی مدفون تاریخ کو زندہ کیا ہے۔ افسوس کہ وہ اس پر فخر نہ کر سکی کہ انسان کی نوعی میراث میں ایک اور صرف ایک الہامی کتاب ایسی موجود ہے جو تغیراتِ زمانہ سے اب تک محفوظ ہے ۔۔ پیغمبرِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کا مکمل ریکارڈ ڈیڑھ ہزار سال گزر جانے کے باوجود کتابی شکل میں موجود ہے۔ علم ہاں علمِ انسانیت کی سب سے بڑی میراث ہے۔ یورپ کے مدعیان علم کو خوش ہونا چاہیے تھا کہ انسانیت کی اس سب سے بڑی میراث |