Maktaba Wahhabi

299 - 458
انتظار میں نہیں رہے گا کہ وہ سست رو جماعت اپنا رختِ سفر باندھے تو اس کو اپنا رفیقِ راہ بنا کر چلے۔ دوستو! میں کس طرح یہ حقیقت آپ کے دلوں میں اُتار دوں کہ یہ دَور سست روی کا دَور نہیں اور نہ انفرادیت کا دَور ہے، بلکہ یہ دَور ایک متحرک زندگی کا طالب ہے اور اس کے ساتھ یہ اجتماعیت کا دَور ہے۔ یہ اجتماعی کوشش، اجتماعی جدوجہد اور اجتماعی عمل و کردار کا متقاضی ہے۔ یاد رکھو! جن لوگوں کا دامن اجتماعی زندگی کی دولت سے محروم ہو گا، وہ اس دَور کے تیز رو فاصلوں کے ساتھ ہرگز نہیں چل سکیں گے اور اس کا نتیجہ اس کے سوا کوئی دوسرا نہیں ہو سکتا کہ وہ زندگی کی آخری رمق سے بھی آہستہ آہستہ محروم ہو جائیں گے۔ جب جماعتی روح سے جماعت کے افراد محروم ہو جاتے ہیں، تو وہ انسانوں کی ایک بھیڑ ہوتی ہے بلکہ انسانوں کے خالی ڈھانچے ہوتے ہیں۔ ان کا وجود عدم برابر ہو جاتا ہے، کوئی ان کی طرف نظر اُٹھا کر بھی نہیں دیکھتا اور کچھ عرصہ کے بعد وہ دلوں سے بھی محو ہو جاتے ہیں اور مؤرخ اُن کے لیے صفحاتِ تاریخ میں ایک سطر کے برابر بھی جگہ دینے کو تیار نہیں ہوتا۔ معزز حاضرین! میں آپ سے اجازت چاہتا ہوں کہ اپنے ملک سے متعلق کچھ عرض کروں کہ ہم آزاد ہو جانے کے بعد اسلام کے حفظ و بقاء کے لیے کیا کچھ کر چکے ہیں اور تعلیمات اسلام کو الحاد پسند طبائع سے بچانے کے لیے کس حد تک کامیاب ہوئے ہیں؟ مجھے نہایت افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان جس کی بنیادی اینٹ اسلام پر رکھی گئی تھی، اس پاکستان میں اسلام کے چہرے کو مسخ کرنے میں بلکہ الحاد و زندقت کو اسلام کا نام دے کر پھیلانے میں فسق و فجور کی وہ راہیں جو تقسیم ملک سے پہلے محدود تھیں، اس کو پھیلانے میں ہم نہ صرف یہ کہ کتاب اللہ اور سنتِ رسول اللہ کو پس پشت ڈال کر یہود کی طرح کےنَبَذَ فَرِيقٌ مِّنَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ كِتَابَ اللَّـهِ وَرَاءَ ظُهُورِهِمْ مصداق بن گئے ہیں، بلکہ عام اخلاق و عاداتِ حسنہ، شرم و حیا، عفت و عصمت، صداقت و دیانت، ادب و احترام
Flag Counter