ممد و معاون ہو سکتا تھا، ہر اُس بت کو توڑنے کی کوشش کی جس کی پرستش سے انگریز کا تقرب حاصل ہو سکتا تھا۔ وہ اپنی اور اپنی قوم کی مادی بے بضاعتی کا خیال نہ کرتے ہوئے عظیم روحانی طاقت سے انگریز کے مقابلہ میں میدانِ جہاد میں اُتر آئے۔ انگریز دنیا کی عظیم ترین طاقت کا مالک تھا اور یہ بزرگ اور اُن کے رفقاء، مادی طاقت کے لحاظ سے کمزور اور اجتماعی قوت کے لحاظ سے صفر تھے اور قوم مختلف فرقوں اور گروہوں میں تقسیم تھی، مگر ان حضرات نے اپنی ساری خداداد صلاحیتوں کو کام میں لاتے ہوئے اپنی صفوں کو اس طرح منظم کیا اور ولولہ جہاد سے اس طرح قوم کے دلوں کو گرمایا کہ وہ قوم جو دنیا میں سب سے زیادہ ضعیف اور ناتواں سمجھی جاتی تھی۔ اُس نے دنیا کی سب سے بڑی سلطنت کو شکست دے دی اور اس کو مجبور کر دیا کہ وہ بوریا بستہ باندھ کر اس ملک سے چلا جائے اور اس کے بعد وہ دنیا کی تیسرے درجہ کی طاقت بن کر رہ جائے۔ ان بزرگوں کا وجود اگرچہ پورے برصغیر کے لیے ایک نعمتِ عظمیٰ تھا لیکن اس میں کوئی شک نہیں کہ تقسیم ملک کے بعد جو حالات ہندوستان میں پیدا ہوئے، ان کو دیکھتے ہوئے ہر ہوشمند انسان یہ رائے رکھتا ہے کہ ہندوستان کے مسلمانوں کے لیے اُن کا وجود ایک بیش بہا نعمت اور بہت بڑا سہارا تھا، اس لیے ہم سب ان بزرگوں کے سانحہ ارتحال کو ملتِ اسلامیہ کے لیے بہت بڑا صدمہ سمجھتے ہیں۔ ایسی ہستیاں صدیوں میں بھی مشکل سے پیدا ہوتی ہیں: عمر ہا در کعبہ و بت خانہ مے نالد حیات تاز بزمِ عشق یک دانائے راز آید بروں ہم سب ان بزرگوں کے لیے دعاءِ مغفرت کرتے ہیں اور بارگاہِ رب العزت سے التجاء کرتے ہیں کہ ان کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ یہ بزرگ اپنی اپنی زندگیاں اعلیٰ مقاصد کی راہ میں قربان کر کے ہم سے رخصت ہو کر اپنے ربِ عزوجل کے پاس جا پہنچے |