میمن پروفیسر کراچی یونیورسٹی سے درخواست کی جائے کہ صدارت کے فرائض سرانجام دیں، لیکن انہوں نے اپنی مصروفیتوں کی بناء پر معذرت کا اظہار کیا اور مجلسِ عاملہ کے فیصلہ کے مطابق اس عاجز کو کانفرنس کی صدارت کے بھی فرائض سرانجام دینے پڑے۔ یہ عاجز 1952ء سے عارضہ قلب میں مبتلا رہے۔ بے شمار مصروفیتوں اور ذمہ داریوں کی وجہ سے مجھے ڈاکٹروں کے مشورے کے خلاف اپنی طاقت سے بہت زیادہ کام کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے روز بروز میری صحت کمزور ہو رہی ہے۔ میرا نظام عصبی کسی وقت اتنا بوجھ محسوس کرتا ہے کہ میں کام سے بالکل عاجز ہو جاتا ہوں۔ میں نے ہر چند کوشش کی، منت سماجت کی کہ کانفرنس کی صدارت سے مجھے معاف فرمایا جائے لیکن میری ایک نہ سنی گئی۔ مجبوراً اس دلِ ناتواں نے جماعت کی ذمہ داری کے بندھنوں کی بناء پر اس خدمت کو قبول کر لیا؎ دل کو میں اور مجھے دل محوِ وفا رکھتا ہے کس قدر ذوقِ گرفتاری ہم ہے ہم کو یادِ رفتگان اگرچہ تقسیم کے تیز و تند آلہ نے برِصغیر کے دو ٹکڑے کر دئیے لیکن روحوں کا ملاپ اور قلوب کا اتصال ناقابلِ انفکاک ہوتا ہے۔ گزشتہ چند ماہ میں مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ اور مولانا حسین احمد رحمہ اللہ جیسی عظیم المرتبت شخصیتوں کا انتقال ملتِ اسلامیہ کے لیے بہت بڑا صدمہ ہے۔ مولانا ابو الکلام آزاد رحمہ اللہ اس برِصغیر میں علامہ جمال الدین افغانی رحمہ اللہ کے ایک طرح نائب تھے۔ مولانا حسین احمد مدنی رحمہ اللہ حضرت شیخ الہند رحمۃ اللہ علیہ کے شاگرد اور جانشینِ صادق تھے۔ ان حضرات کا نظریہ یہ تھا کہ اسلام اور ملتِ اسلامیہ کا طاقتور حریف انگریز ہے۔ اس لیے اُنہوں نے اور اُن کے رفقاء نے اپنی ساری قوتیں اس امر کے لیے وقف کر دیں کہ انگریز کو اس ملک سے نکال دیا جائے۔ یہی وقت کا سب سے بڑا جہاد اور اسلام کی سب سے بڑی خدمت ہے۔ اس نظریہ کے تحت اُنہوں نے ہر اُس پتھر کو راستے سے ہٹانے کی کوشش کی جو انگریز کے اقتدار کے لیے اس ملک میں |