کی خطابت کا زور اور روانی تیز تر ہو گئی۔ پتھر اُن کے سر کے پاس سے گزر رہے تھے، مگر اُن کے اعصاب اس قدر مضبوط تھے کہ خوف و ہراس کی کوئی ہلکی سی چھینٹ بھی اُس وقت اُن کے دامنِ صبر و وقار پر نظر نہ آتی تھی۔ نفاست اور شائستگی طبیعت میں نفاست بہت تھی۔ بدتہذیبی اور شائستگی سے اُن کی طبیعت مکدر بہت ہوتی تھی۔ کپڑا ہمیشہ نفیس پہنتے۔ کتاب کو جِلد نفیس بندھواتے، قلم نفیس خریدتے۔ ان کی کتابوں پر کبھی کوئی داغ دھبہ میں نے نہیں دیکھا۔ لباس ہمیشہ اُجلا پہنتے تھے۔ میں نے اُن کے کپڑوں پر کبھی میل نہیں دیکھی۔ سلیقہ اُن کے خمیر میں گندھا ہوا تھا۔ وہ اپنے کمرے کی ہر چیز بڑے قرینے سے متعین جگہ پر رکھتے تھے۔ کسی چیز کو اس کی اصل جگہ سے کوئی ہٹا دیتا تو کمرے میں داخل ہوتے ہی پوچھتے: ’’میرے کمرے میں کون آیا تھا؟ یہ چیز کس نے چھیڑی ہے؟‘‘ حضرت مولانا اشرف علی صاحب تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی کتاب ’’ارواحِ ثلاثہ‘‘ جو بزرگوں کے حالات پر مشتمل ہے، کے حاشیے پر جگہ جگہ اُنہوں نے اپنے قلم سے نوٹ لکھے ہیں۔ حضرت مرزا مظہر جان جاناں رحمۃ اللہ علیہ کے حالات میں مندرجہ ذیل حکایت لکھی ہے: ’’بے قاعدہ رکھی ہوئی چیز دیکھ کر مرزا صاحب کے سر میں درد ہونے لگتا تھا۔ ایک دن بہادر شاہ بہت الحاح و التجاء کے بعد اجازت حضوری ملنے پر زیارت کے لیے حاضر ہوا۔ موسم تھا گرمی کا، بادشاہ کو پیاس لگی اور پانی طلب کیا۔ حضرت نے فرمایا: وہ گھڑا رکھا ہوا ہے، پیالہ میں لے کر پانی پیو۔ بادشاہ نے پانی پیا اور پیالہ گھڑے پر رکھ دیا۔ مرزا صاحب کی نظر جو گھڑے پر پڑی، تو پیالہ ذرا ترچھا دھرا ہوا تھا۔ دیر تک ترچھی نگاہ سے دیکھتے رہے۔ آخر ضبط نہ ہو سکا۔ فرمایا: جناب آپ بادشاہت کیا کرتے ہوں گے، ابھی تک خدمت گاری تو آئی ہی نہیں |